کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 67
انداز میں اپنے تحقیقی مقالہ"پاکستان میں نارواداری "میں تحریر فرماتے ہیں ۔ "بدقسمتی سے آزاد خیال افراد اور حقوق انسانی کے مبلغ اسلام بلکہ سرے سے مذہب کے بارے میں ہی ایک مسخ شدہ تصور رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اسلام سے ان کی ناواقفیت ہے اب سے پہلے جو تجدد پسند گزرے ہیں اگر یہ لو گ انہی کی طرح اسلام کے تاریخی ورثے اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوتے تو انہیں اندازہ ہو تا کہ وہ اسلام کی اس تفسیر سے جو خمینی نے کی ہے بہت دور ہیں اس کی بجائے اسلام کا ایک انسانی پہلو ہے" پروفیسر شریف المجاہد ان لبرل حضرات کو مشورہ دیتے ہیں : "اسلام سے(اگر وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے تو بھی) اجتناب برتنے اور اسے نظر اندازکرنے کی بجائے آزاد خیال عناصر اور انسانی حقوق کے مبلغین کے حق میں اچھا ہوگا اگر وہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی دو مضوعات "قرآن کے مفاہیم "اور اسلام اور تجدد"کامطالعہ کرلیں اور ان کی باتوں پر دھیان دیں ۔اس مطالعے سے انہیں معلوم ہوگا کہ وہ جن اقدار (انسان دوستی ،روادارمی )کے دعویدار ہیں اور جن کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ عمومی انداز میں اسلامی تعلیمات کے اندر ہی موجود ہیں "وہ مزید لکھتے ہیں ۔ "یہ آزاد خیال لوگ اگر اسلام کو محض چند رسوم کا مجموعہ یا محض اوامرونواہی کی دستاویز سمجھتے ہیں اور خود کو اپنی تاویلات تک محدودرکھتے ہیں یا اسے رد کردیتے ہیں تو وہ ان اصولوں سے بھی بے انصافی کر رہے ہیں جنہیں وہ بے حد عزیز رکھتے ہیں اور اسلام سے بھی انصاف نہیں کرتے ۔پاکستانی معاشرے کی خصوصیات کے پیش نظر اور عام لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ان لوگوں کو چاہیے کہ اسلام سے شناسائی پیدا کریں اور اس کے فلسفے کو اور اس کے بنیادی اصولوں کو سمجھیں بشرطیکہ وہ معاشرے کی تعمیر میں کو ئی کردار ادا کرنا چاہتے ہوں ۔بیرونی اقدار کو ملک کے اندردرآمد کرنے یا انہیں اس طرح پیش کرنے سے گویا وہ مغرب کے تجربوں سے اخذ کی گئی ہیں مغرب کی تعلیم یافتہ اشرافیہ کے دلوں میں تو ہمدردی کے جذبات پیدا کیے جاسکتے ہیں لیکن نا خواندہ اور نیم خواندہ عوام کے لیے ایسی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کے روشن خیال عناصراور حقوق انسانی کے علمبردار اسلامی ثقافت کو قبول کرنے میں آنا کافی نہ کریں ۔وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے ذہنی تحفظات اور تعصبات سے جان چھڑائیں " پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے مندرجہ بالاسطور میں پاکستانی کے نام نہاد روشن خیال اورلادین عناصر کو پاکستانی کلچر کے سانچے کو قبول کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل یہی بات اپنے اس الہامی مصر عےمیں فرمائی تھی۔ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی