کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 66
اسلام ہے جسےخلفاءراشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عملاً نافذ کیا اور جس کی تو ضیح و تشریح آئمہ محدثین اور مفسرین نے کی ہے لیکن اسلام سے لادینیت پسندوں کی مراد ایسا اسلام ہے جن پروہ ان غلطیوں کا بوجھ لاد سکیں جو تاریخ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہیں وہ اسلام کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو انھوں نے نے خود بتائی ہے یا ان کے پیش رو مستشرقین اور مسیحی مشزیوں نے تیار کی ہے "(صفحہ 30) جدید یورپ کے نامور شہر ہ آفاق فلسیفوں اور مؤرخین مثلاً ٹائن بی، جی، ایچ ویلز،ولڈیورانٹ اور پروفیسر ولفریڈکینٹ ،ول آسمتھ بھی اقرار کرتے ہیں کہ مغرب کی تہذیبی روایات کا سر چشمہ صہیونی مسیحی (Judeo Christian)اوریونان و روم کی میراث ہے شاید پاکستان کے لبرل ازم کے پجاریوں کو بھی اس حقیقت سے انکار نہ ہو۔ مگر ان کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے ۔وہ مسیحی یورپ کے تہذیبی اقدار ان کے لادینی مزاج ان کے کلیسا کے کردار ان کے ثقافتی ارتقاء کے اہم عوامل ان کی تہذیب میں مسیحی صہیونی اثرات وغیرہ جیسے عناصر اور ان کے مخصوص تاریخی پس منظر کا لحاظ کئے بغیر تہذیب مغرب کو پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد اور ان کے معیارات دوہرے ہیں وہ پاکستان اور مگرب کا جب بھی موازنہ کریں گے۔پاکستان کو ایک وحشی تمدن کانمونہ ظاہر کرنے میں کوئی ابلاغی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ انہیں پاکستان اور جدید مغرب کے اداروں میں کسی قسم کی کو ئی قدر مشترک نظر نہیں آئے گی۔۔۔مگر اس کے باوجود پاکستانیوں کو گھسیٹ کر تہذیب مغرب کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے بے چین ہیں ۔یہی منافق لبرل دانشورہی ہیں جنہوں نے پاکستان میں پانچ اقلیتوں کا شر انگیز نظر یہ گھڑا ہوا ہے انہیں صوبہ پنجاب کے ہی دو علاقوں ملتان اور لاہور کی تہذیب و کلچر میں اس قدر معرکۃ الآراء فرق نظر آتا ہے کہ یہ سرائیکی صوبہ کے قیام کے نعرے لگاتے ہیں یہ بلوچستان سندھ سرحد اور پنجاب کا موازنہ اس طرح کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ چار مختلف ممالک کا تذکرہ کیا جارہا ہو۔اسی صوبائی تعصب کو ہوا دینا ہی ان کی سیاست کا ایک اہم اصول ہے۔ مگر وہ اس اصول پر قائم نہیں رہتے ۔جب یہ مغربی تہذیب اور سیکولرازم کو پاکستان میں نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں پاکستان اور سکینڈے نیو یا کی ننگ دھڑنگ اور یورپ کی ملحدانہ تہذیب اور روس جیسے خنک علاقے کے کلچر اور پاکستانی معاشرے میں بالکل کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے ۔یہاں پاکستانی کلچر کے تشخص سے ہی یہ انکار کرتے ہیں اگر ان آزادی ضمیر کے ان تھک منادوں کا ضمیر اگر زندہ ہو تا تو شاید پاکستان اور یورپ کے درمیان ثقافتی فرق کا ادراک کوئی مشکل امر نہیں تھا اور شاید سیکولرازم کی بات کرتے ہوئے انہیں اپنے ضمیر کے طمانچوں کا سامناکرنا پڑتا۔مگر یہ بات تو زندہ ضمیر لوگوں کی ہے!! تحریک پاکستان کے نامور محقق و مورخ پروفیسر شریف المجاہد پاکستان کے مذہب بیزار سیکولرافراوکی اسلامی تعلیمات کے متعلق لاعلمی اور مذہب سے ان کی نفرت کے بارے میں بے حد افسردہ دلی کے