کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 64
ہو نا ایک گناہ کی بات تصور کی جاتی تھی ۔معمولی نعمتوں سے بہرہ ور ہونا بھی عاصیانہ عیش پرستی کے زمرے میں شمار ہوتا تھا مگر اس کا ردعمل یہ ہے کہ آج کا سیکولر یورپ اُخروی زندگی کے تصور سے ہی بیزار ہے آج کا مغربی انسان اس دنیا کی لذتوں سے حریصانہ طور پر لذت اندوز ہونے کو ہی زندگی کا نصب العین سمجھتا ہے۔ گویا پہلے اگر دنیا وی معاملات کے متعلق تفریظ تھی تو آج افراط کی اجارہ داری ہے۔ اسلامی نظام میں دین و دنیا کے درمیان حسن توازن قائم کیا گیا ہے اسلام دنیا سے مکمل بے رغبتی کا پرچار نہیں کرتا اور نہ ہی دنیاوی لذتوں میں غرق ہو کر اُخروی زندگی کو یکسر بھلا دینے کو قابل تحسین سمجھتا ہے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مضمون نگار کے مطابق "قرآن مجید میں دنیا کا لفظ ایک سو پندرہ مرتبہ آیا ہے اور اکثر آخرت کے مقابلے پر آیا ہے قرآن کی روسے دنیا اور آخرت دونوں کا ئنات کی حقیقت میں شامل ہیں اور ایک مؤمن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دونوں کی فلاح و سعادت کے لیے کوشاں ہو خدا پرستی اور دین داری دنیوی معیشت اور ترقی کے خلاف نہیں اسی لیے ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ "یعنی اے رب !ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما"(البقرۃ201) کی دعا سکھائی گئی ہے جس میں دنیا و آخرت دونوں کی بہتری کے حصول کی التجاہ کی گئی ہے قرآن مجید میں حج کے احکام کے سلسلے میں حکم ہوا۔ اس میں تمھارے لیے کوئی گناہ نہیں کہ (اعمال حج کے ساتھ )تم اپنے پروردگار کے فضل کی تلاش میں بھی رہو البتہ ایسا نہ کرنا چاہیے کہ کاروبار دنیوی کے انہماک کی وجہ سے حج کے اوقات و اعمال سے بے پروا ہو جاؤ "(البقرۃ197۔)لیکن اسلام میں اس امر کی ممانعت ہے کہ صرف دنیا کو عین مقصود سمجھ لیا جا ئے اور آخرت کا انکار یا اس سے قطع نظر ہو جا ئے قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے "کیا تم آخرت کے مقابلے میں حیات دنیوی کو پسند کرنے لگےہو۔(التوبہ 32) ان ارشادات ربانی سے معلوم ہواکہ دین اسلام دنیا کا مخالف نہیں بلکہ اس دنیا پرستی کا مخالف ہے جو انسان کو خدا پرستی نیکی اور جزاو سزا کے عقیدے سے غافل کر دیتی ہے دوسری تیسری صدی ہجری میں زہد و تصوف کے کچھ مسالک ظہور میں آئے جن کے زیر اثر ترک دنیا اور ترک سعی کی تلقین ہوئی لیکن یہ انتہا پسند صوفیوں اور زاہدوں کا مسالک تھا جن معتدل صوفیا کی نظر روح شریعت پررہی ،انھوں نے بری دنیا داری سے بچنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کسب معاش اور سعی وعمل کو ضروری قرادیا ہے جمہورا کابر علماء اور حکماء اسلام نے زندگی کو ایک معرکہ عمل قراردیا ہے اور اس سے فرار کا سبق نہیں سکھایا علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں دنیا کو آخرت کی تجربہ گا ہ قرار دے کر اس میں حسن زندگی کو انسان کا فطری تقاضا اور اس کا کمال ظاہر کیا ہے مفکر اسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے دنیوی زندگی کو آخرت سے وابستہ کرنے کی حکمت یہ بتائی ہے۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍکہ اعمال انسانی کے لیے ایسا اخلاقی معیار ہو جا ئے جو مثالی ہو۔ ابن مسکویہ اور امام غزالی نے سعادت کو دنیوی زندگی کا نصب العین قراردیاہے۔