کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 61
اقتدار تو برائے نام رہ گیا تھا اصل اقتدار کا مالک کلیسا یا پوپ ہی تھا قیصر سیاسی حکمران ہونے کے باوجود عملاً پوپ کا تحت ہی تھا ۔پوپ کی خوشنودی کا حصول مسیحی حکمرانوں کے سیاسی وجود کو برقراررکھنے کے لیے ناگزیرتھا ۔مگر دوسری طرف اسلامی تاریخ کوہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے متقی ترین افراد کو خلیفہ وقت کی طرف سے کوڑوں کی ذلت آمیز سزاؤں سے دوچار کیا جا تا ہے کہ انھوں نے خلیفہ کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا ۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر آئمہ کرام نے اس ضمن میں عزیمت کی جو داستانیں رقم کی ہیں اسلامی تاریخ ان پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔ دوسری جانب کلیسا کی تاریخ کا ایک ایک ورق گواہی دے رہا ہے کہ پوپ اور اس کے حواری مجسٹریٹ جیسی معمولی آسامی کے لیے حکمران وقت سے تصادم اور جنگ و جدل کرتے رہے ہیں ۔
اسلام اور عیسائیت کے درمیان دوسرا اہم ترین فرق یہ ہے کہ عیسا ئیت میں تقویٰ اور تدین کی معراج یہ کہ انسان دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے جنگل میں ڈیرے ڈال لے اور دنیا وی نعمتوں کواپنے اوپر حرام کر لے۔ کلیسا کی اس کی اس غیر فطری روش کا نتیجہ ہی تھا کہ مسیحی پادریوں کے لیے عورت سے نکاح کرنا ممنوع قرارد یا گیا ۔مگر اسلام اپنے پیروکاروں کو دنیا میں رہتے ہوئے تزکیہ نفس اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی ہدایت کرتا ہے پیغمبر اسلام محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معروف ارشاد گرامی ہے کہ "اسلام میں کو ئی رہبانیت نہیں ہے۔
گذشتہ سطور میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مغرب میں سیکولرازم کے نظریے کی ابتداہی اس تصور سے ہوئی کہ وہاں کے بعض مفکرین نے روحانی معاملات سے ہٹ کر دنیاوی معاملات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کو شش کی۔اسلام کے اندر نماز ،روزے کی طرح اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کی کوشش کو بھی عبادت قراردیا گیا ہے کلیسا نے عورت کو چھونا حرام قراردیا تھا مگر اسلام نے اپنی زوجہ سے صنفی مواصلت کو صدقہ اور باعث اجر قرار دیا قرآن مجید میں واضح حکم دیا گیا ہے ۔
﴿ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ یعنی ﴾دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو "
جہاں تک چرچ اور ریاست کے درمیان تفریق کی بات ہے یہ تصور مغرب کے سیکولردانشوروں کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے۔ خود عیسائیت کی بنیادی تعلیمات میں دین وسیاست کی تفریق کی واضح تعلیم موجود ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کاا سلوب اور منہج اخلاقی ہے اسی لیے انھوں نے برملایہ اعلان کیا کہ وہ شریعت موسوی کی پابندی کرتے ہیں شریعت یعنی نظام عمل یا طریقہ کار کے بغیر ریاستی نظم و نسق نہیں چلایاجا سکتا ۔اخلاقی تعلیمات کے مقابلے میں شریعت کی خصوصیت اس کا قانونی پہلو اور محکم ضابطوں کا وجودہے جسے معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام کے لیے نافذ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نئی شریعت نہیں لائے تھے اسی لیے انھوں نے حکومت کرنے کی خواہش کا