کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 60
حرام خور کہنا گالی نہیں ہے۔یہ حقیقت حال کا اظہار ہے۔جولوگ اسلام کے مقابلے میں پاکستان میں سیکولرازم لانا چاہتے ہیں ۔انہیں مسلمان عوام کو اس قدر تو اظہار رائے کی آزادی دینی چاہیے کہ وہ انھیں لادین کہہ سکیں ۔ظاہر ہے کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے سے تورہے۔اگر ایک سوشلسٹ ریاست میں سوشلزم کے مخالفوں کو ملک بدر کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا توا ایک خالص اسلامی ریاست میں اس کے نظریاتی مخالفوں کو ملک بدر کرنا بھی غلط نہیں سمجھا جاناچاہیے۔مگر ہمارے سرخ جنت کے پجاری جو بات سوویت یونین کے ضمن میں درست سمجھتے تھے ،وہ پاکستان کے بارے میں غلط سمجھتے ہیں !!! آخر میں ہم بے حد زور دے کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیکولرازم کا مطلب بلاشبہ اسلام دشمنی ہے۔چونکہ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ان معنوں میں اس کادوسرا مطلب پاکستان دشمنی بھی ہے۔اسلام اور پاکستان لازم ملزوم ہیں ۔اسلام ہی پاکستان کی اصل شناخت ہے ،ورنہ اس کا وجود بے معنی ہے ۔اگر سیکولرازم کو ہی نافذ کرناتھا تو پاکستان کے قیام لاکھوں جانوں کی قربانی دینی کیا ضروری تھی؟ (دوسرا حصہ) سیکولرازم:عیسائیت اور اسلام کے تناظرمیں آج کا ماڈرن مغرب زدہ اور بزعم خویش لبرل مسلمان سیکولرازم کو جو بھی معنی پہنائے اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کسی قسم کی مطابقت پیدا کرنے کی کاوش صحرا میں سراب کو پانی سمجھ کر اپنے آپ کو ہلکان کرنے کے مترادف ہے ۔یہ لوگ بھی سمجھتےہیں کہ اسلام اور سیکولرازم باہم مخالف اور متصادم نظام ہائے فکر ہیں مگر وہ تلبیس کوشی کے پردے میں بات کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے اگر اسلام کی کھل کر مخالفت کی تو عوام کے شدید عتاب کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا اور مغربی جمہویت نے انہیں کچھ اور بات ذہن نشین کرائی ہو یا نہیں البتہ انہیں جمہوریت کے رٹوطوطے ضرور بنا دیا ہے وہ جمہوریت اور عوام کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ عوام کو اپنے فکری الحاد میں رنگنا چاہتے ہیں مگر اس باغیانہ تبلیغ کے لیے جو اخلاقی جراءت درکار ہے اس سے ان کا دامن دل تہی خاطر ہے۔ اسلام اور مغرب کے سیاسی تصورات کے درمیان اصولی کلیدی اور بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اسلام چرچ اور ریاست یا زیادہ بہتر الفاظ میں دین وسیاست کاسرے سے قائل ہی نہیں ہے اسلام کے اندر یورپ اور قیصر کی تفریق نہیں ہے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر خاندان بنا اُمیہ خاندان بنو عباسہ عثمانی سلطنت و مابعد اسلامی تاریخ کا کو ئی بھی دور ایسا نہیں ہےجہاں پوپ اور قیصر یا کسی مذہبی پنڈت اور خلیفہ کے درمیان کوئی تصادم یا باقاعدہ محاذ آرائی کی صورت نظر آتی ہو۔ اسلامی تہذیب و تمدن کلیسا جیسے کڑی درجہ بندی پر مشتمل ادارے کے وجود تک سے ناآشنا ہے جبکہ مسیحی یورپ کی پوری تاریخ میں کلیسا نے اہم ترین ادارے کا کردار اداکیا ہے۔یورپ کے قرون وسطیٰ کی کئی صدیاں تو ایسی ہیں کہ جس میں قیصر کا