کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 6
شدید تنقید کی وجہ: یہ ساری تنقید اس بنا پر تھی کہ یوایناو کے نمائندوں نے اہم نوٹس جاری کیا تھا :" یہ کانفرنس پہلی تمام پیش رفت کا جائزہ لے گی۔ پھر بیجنگ پلیٹ فارم ایکشن کے 12نہایت اہم نکات کا جائزہ لے کر انھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ "افسوس لوگوں پر ابھی تک روایتی جنسی شناخت طاری ہے اور عورت کے خلاف جنس کی بنا پر امتیازی سلوک مردوزن کی مساوات قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر حکومتوں نے بھی ایسے اقدامات پرتوجہ دی نہ ہی انھوں نے اس امر پر زور دیا جس عورتوں کے تولید ی حقوق اور جنسی صحت کے متعلق حقوق پر عملدرآمد ممکن ہوسکے ۔اس لیے اب یو این او بین الاقوامی تنظیموں مہذب معاشروں سیاسی جماعتوں ذرائع ابلاغ نجی شعبہ سب کی یکساں ذمہ داری قرار دیتی ہے کہ وہ ایسی عوامی بحث کا آغاز کریں اور باقاعدہ مہم چلائیں جس سے متعلقہ امور پر کھلے عام بات چیت ہو عمومی رویے زیر بحث آئیں نئے تصورات جنم لیں اور جائزہ لیا جا ئے کہ مرد عورت کی مساوات پرکس حد تک عمل ہوسکتا ہے ۔پھر شعبہ تعلیم میں کام کرنے والوں کو رسمی وغیرہ رسمی ذرائع اختیار کر کے یہ بیداری پیدا کرنے کی کو شش کرنی چاہیے اسی طرح بین الاقوامی تنظیموں آئی ایم ایف ورلڈ ٹریڈ آرگنا ئز یشن گروپ آف سیون G7اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو جنس کی مساوات کو فیصلہ سازی کااہم حصہ بنانا چاہیے ۔ تجزیہ: خواتین کے اختیار واقتدار میں اضافہ ہرفورم پر ان کی پچاس فیصد نمائندگی اسقاط حمل کاحق تولیدی خدمات اور گھریلو خدمات پر معاوضہ طلب کرنا ہم جنس پرستی کو قانونی جواز مہیا کرنا شوہر کے ہاتھوں ازدواجی عصمت دری اور مساوات مردوزن کانعرہ کیا یہ سب بیسویں صدی کے پر فریب نعرے نہیں ہیں عورت آخر کون سا اقتدار مانگ رہی ہے کیاماں کی حیثیت سے وہ معاشرے کا قوی ترین کردار نہیں ہے؟کیا بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند کی مشیر اور شریک سفر نہیں ہے؟ وہ تو گھر کی ملکہ ہے بہن اور بیٹی کی محنت تو بڑے بڑے سنگدلوں کو پگھلا کر موم کر دیا کرتی ہے کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خاتون طاقتورنہیں ہےیامرد برتر ہے اور عورت کم تر ۔یہ سارے مسائل مغربی معاشروں کے تو ہوسکتے ہیں مگر دین اسلام تو بذات خود محسن انسانیت ہےوہ تو 14سو برس قبل عورت کو بن مانگے اتنے بڑے حقوق عطا کر چکا ہے جس کے لیے مغربی عورت ابھی تک کشکول گدائی لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔مظاہروں ہڑتالوں جلوسوں سیمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے جائز حقوق مانگتے مانگتے بے راہ روی کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں کی خواتین کی حق تلفیوں اور انہیں ان کے حقوق سے بہرہ ور کرنے کی جو باتیں بہت دلسوزی سے کی جارہی ہیں یہ دراصل اسلام کے خاندانی نطام اور اخلاقی اقدار کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر کفر کے نظام کو ان پر مسلط کرنے کی سازش ہے اور یہ باتیں کرنے