کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 58
ہمارے ہاں عزیزصدیقی صاحب جیسے سیکولر دانشور جو علم ،آگہی اور عقلیت سے بھر پور مگر عصبیت سے خالی معاشرہ کا قیام چاہتے ہیں ،وہ دینی مدارس پر پابندی لگانے کامطالبہ کرتے ہیں ۔وہاں ان کی رواداری ایک عجیب تنگ نظری میں بدل جاتی ہے۔وہ علم سے مراد صرف دنیاوی علوم لیتے ہیں ۔اگر عوام اپنی مرضی سے دینی علوم کا اہتمام کرنا چاہیں تو یہ اسے برداشت کرنے کوتیار نہیں ہیں ۔المختصر سیکولرریاست کی غیرجانبداری اور عدم مداخلت ایک ڈھونگ اور لا یعنی دعویٰ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فحاشی اور عریانی کے خاتمے کےلئے ریاستی مداخلت زیادہ قابل قبول ہے۔یاد ینی مدارس کو ختم کرنے یااسکارف پر پابندی لگانے کے لیے ریاستی مداخلت زیاہ بہتر ہے۔اس بات کا فیصلہ ہرزی شعور پاکستانی مسلمان خود کرسکتا ہے۔ اسلام اور سیکولرازم میں مشترک قدریں ڈھونڈنے کی کوشش: ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ ہے جو مذہب سے مکمل انکار نہیں کرتا،اسلام اور سیکولرازم کے درمیان عجب مشابہت کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے۔چونکہ سیکولرازم کا ایک پہلو دنیوی اُمور کی انجام دہی بھی ہے اور اسلام دین ودنیا کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔لہذا یہ حضرات دنیاداری کو اسلام اور سیکولرازم کے درمیانی قدر مشترک قرار دے کراسلام اور سیکولرازم کے درمیان فرق کو مٹا دیناچاہتے ہیں اور پھر اس استدلال کے ذریعے بزعم خویش ثابت کرتےہیں کہ اسلامی ریاست ہی سیکولر ریاست ہے۔ روزنامہ ڈان(25جون 2000ء) میں کراچی کے پروفیسر سید جمیل واسطی کاایک مفصل مکتوب،اسلام اورسیکولرازم کے عنوان سے چھپا ہے۔موصوف رقم طراز ہیں : "لفظ سیکولر کالادینی ترجمہ کرنا در حقیقت اس لفظ کے اصل مطلب کو مسخ کرنے اور اس کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔اس لفظ کو اس کے اصل تاریخی تناظر سے الگ کرکے صحیح طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔مسیحی مغرب میں دو متحارب قوتیں تھیں ۔یعنی چرچ اور ریاست ،پوپ،اور قیصر،جو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اکثر آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں ۔ اسلام کے مذہبی اور سیاسی نظام میں ،نہ تو کوئی چرچ ہے،نہ کوئی پوپ اور نہ ہی کسی قیصر(Emperor) کی گنجائش ہے۔پہلے چار خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بادشاہ تھے نہ ہی سلطان،سیکولرکا متضاد لفظ(Theocratic)تھیا کریسیMonastic(راہبانہ) اور Clericalہے۔چونکہ اسلام میں کوئی چرچ نہیں ہے۔نہ ہی کوئی راہبانہ سلسلہ ہے۔اس لئے اسلامک اور سیکرلر ریاست دونوں اپنے شہریوں کو مذہبی آزادی دیتی ہیں ۔انہیں انسانی حقوق ،آزادی،قانون وانصاف کی نگاہ ہی مساوات کی ضمانت دیتی ہیں ،سیکرلرکامطلب ہے:دنیاوی اور مادی اور اسلام ایک جامع مذہب کی حیثیت سے چونکہ دنیاوی معاملات ومفادات کا احاطہ بھی کرتاہے لہذا یہ ایک سول(Civil) اور سیکولر مذہب ہے" اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دنیوی اور اُخروی زندگی دونوں کے معاملات کا احاطہ کرتاہے،