کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 57
اوڑھ رکھا ہے۔گذشتہ رکھا ہے۔گذشتہ سال ترکی پارلیمنٹ کی خاتون رکن محترمہ مروہ کی اسمبلی کی رکنیت اس جرم کی پاداش میں منسوخ کردی گئی۔ اور ان کی شہریت ختم کردی گئی ۔وہ اب دربدری کا دکھ سہہ رہی ہیں ۔سیکولر ازم کااگر مزید مفہوم سمجھنا ہوتو پاکستان کے مادر پدر آزاد دانشوروں اور صحافیوں کی تحریریں پڑھ لی جائیں ۔
اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جو شدید نفرت اور حقارت ان کی تحریروں میں ملتی ہے۔وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔کہ سیکولرازم کا جو مفہوم ان کے اپنے ذہنوں میں ہے اس کےلئے لادینیت بلکہ بعض انتہا پسندافراد کی صورت میں دہریت کے الفاظ ہی صحیح مترادفات ہیں ۔
پاکستان کے ایک سیکولر دانشور عزیز صدیقی صاحب جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں :
"ہر ملک کے آئین میں اس امر کا اعلان واشگاف طور پر ہونا چاہیے کہ اس کے تمام شہری اور مذہبی نسلی اور لسانی گروہ قانون کی نظر میں برابر ہیں اور انہیں برابر کی سطح پر اور پوری آزادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ماحول میں ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں ۔دوسرے الفاظ میں ریاست کو لفظی اور معنوی دونوں لحاظ سے سیکولر ہونا پڑے گا۔ایک بے عمل ریاست کے بعد بدترین منافرت پیدا کرنے والی ریاست وہ ہے جو اپنے عمل میں جانبدار ہے اور جو حکومت غیر سیکولر ہ وہ صریحاً جانبدار ہے۔چنانچہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ عم،آگہی اور معقولیت کا ایسا ماحول پیدا کرے جس میں عصبیت پر مبنی اُصول اور تشدد کے حربے بالعموم ناپسند کئے جانے لگیں "(پاکستانی معاشرہ اور عدم رواداری،مرتب حسن عابدی،صفحہ نمبر64)
سیکولرازم کے حامیوں کے دوہرے معیار:
عزیز صدیقی صاحب جن معنوں میں سیکولرریاست کو غیر جانبدار سمجھتے ہیں ،ان معنوں میں ایک اسلامی ریاست بھی غیر جانبدار ہوتی ہے۔اس میں قانون کی حکمرانی کاوہی تصور موجود ہے۔لیکن عملی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے۔کہ نہ تو سیکولر ریاست کلیۃ غیر جانبدار ہوتی ہے اور نہ ہی اسلامی ریاست۔چونکہ دونوں ریاستوں کے پس پشت ایک بے حد توانا نظریہ کارفرما ہوتا ہے اسی لیے دونوں ریاستیں ہی درحقیقت نظریاتی ریاستیں ہوتی ہیں ۔اور ایک نظریاتی ریاست کبھی بھی مکمل غیر جانبدار نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے ۔ایک اسلامی ریاست اسلام کی نظریاتی اساس سے متصادم سرگرمیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرے گی۔ایک سیکولر ریاست اپنے شہریوں کو ساحل پر فطری لباس(ننگا پن) میں گھومنے کی تو بخوشی اجازت د ے دیتی ہے۔مگر یہی ریاست سکول کی بچیوں کی سرپر سکارف اوڑھنے کی اجازت نہیں دیتی،فرانس اور مصر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ترکی کی سیکولر ریاست شہوت انگیز موسیقی کی کھلم کھلا اجازت دیتی ہے۔مگر وہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے کی اجازت نہیں دیتی۔وہاں کے تعلیمی اداروں میں مذہب دشمن مضامین پڑھائے جاتے ہیں مگر دین کی تعلیم کی اجازت نہیں ہے۔اور پھر