کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 55
ان کی سیکولرازم کی خانہ زاد،خود ساختہ اور ساقط الاعتبار وضاحت کو کس منطق کے مطابق قبول کریں ۔اور پھر ایما ڈنکن اور وہ صاحب جنھوں ے اسے بتایا کہ اُردو زبان میں مذہبی طبقہ نے سیکولرازم کے لیے لادینیت کی اصطلاح کو رواج دیا،اگر ذرا سا غور کریں توا نہیں اس سطحی الزام تراشی پر خود ہی شرم محسوس کرنے لگے گی۔ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جسے اُردو زبان وادب کے عظیم دانشور جو فکری اعتبار سے سیکولر ہیں ،اگراپنی مرتبہ کردہ لغت میں سیکولرازم کے لئے لادینی جذبہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ،تو پھر مذہبی طبقہ کو مطعون کیوں ٹھہرایا جاتاہے۔کیاکوئی سیکولردانشور یہ فرض کرسکتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جیسا لسانیات کا بحرذ خار اس معاملہ میں کسی غیر ذمہ دارانہ اور غیر ثقہ ترجمہ کو پیش کرسکتا ہے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ اُردو زبان میں سیکولرازم کامترادف موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کی زیر نگرانی مرتب کئے جانے والے،اردو معارف اسلامیہ"جو پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا(1972ء) کی جلد 9 صفحہ 446 پر سیکولر ازم کا ترجمہ دنیویت کیاگیا ہے۔انگریزی لغات میں سیکولرازم کی درج شدہ چند وضاحتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو دنیویت بھی بہت مناسب مترادف معلوم ہوتا ہے۔بالخصوص "Worldlimess"کایہی ترجمہ ہی مناسب ہے۔ عالم اسلام کے نامور مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جن کی عربی اور اردو زبان میں تصنیفات کا ایک زمانہ معترف ہے۔انہوں نے اپنی تحریروں میں سیکولرازم کے لئے نامذہبیت کامترادف استعمال کیا ہے۔ان کی معروف تصنیف عالم اسلام میں مغربیت اور اسلامیت کی کشمکش "میں متعدد مقامات پر"نامذہبیت" کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔البتہ کہیں کہیں انہوں نے لادینیت کالفظ بھی استعمال کیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ زبان وادب کےاتنے بڑے شاہ سوار اورمایہ ناز ادیب نے"نامذہبیت" اور"لادینیت" کے الفاظ کیا محض تہذیب مغرب کے خلاف کسی تعصب کی بنا پر استعمال کئے ہیں ؟سید ابوالحسن علی ندوی کے متعلق اس طرح کاسوئے ظن کوئی بہت بڑا بد باطن ہی پال سکتا ہے۔
عربی زبان جو اُردو زبان کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔اردو زبان کے ہزاروں خوبصورت الفاظ اور تراکیب کا صل منبع ومصدر عربی زبان ہی ہے۔امت مسلمہ کا عظیم ترین لٹریچر بھی اسی مقدس زبان میں موجود ہے۔جس میں "قرآن عربی" نازل فرمایاگیا۔عربی زبان کی فصاحت ضرب المثل ہے۔عالم عرب کے معروف سیکولر دانشور سیکولرازم کا ترجمہ العلمانیۃ کرتے ہیں ۔ان میں سے بھی کسی نے اس کا ترجمہ"مذہبی غیر جانبداری"نہیں کیا۔مگر عربی زبان کے دین پسند دانشوروں نے عرب سیکولر طبقہ کی جانب سے سیکولرازم کے لے علمانیت کے مترادف کو غلط قرار دیا ہے ۔ عالم عرب کے شہرہ آفاق مصنف علامہ یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب"سیکولرازم اور اسلام" میں سیکولرازم کے معانی ومطالب پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتے ہیں :