کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 53
دور رکھنا چاہیے۔اس سے مر اسد حکومت میں خالص لادینی سیاست ہے۔در اصل سیکولرازم اخلاق کا ایک اجتماعی نظام ہے جس کی اساس اس نقطہ نظر پر ہے" مندرجہ بالا سیکولرازم کے متعلق وضاحتوں ،مفاہیم اور تعریفات کی روشنی میں سیکولرازم کا مختصراً مفہوم جوسامنے آتا ہے۔اسکے اہم ترین پہلودرج ذیل ہیں : 1۔سیکولرازم ایک ایسانظریہ ہے جو اُلوہی،روحانی اور الٰہیاتی اُمور کی بجائے دنیاوی،مادی،غیر روحانی،غیر مذہبی اور غیر مقدس اُمور پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتاہے۔ 2۔سیکولرازم درحقیقت قرون وسطیٰ میں کلیسا کی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف شدیدردعمل تھا۔ 3۔سیکولرازم کا نظریہ دین سیاست یا چرچ اور ریاست کی مکمل تفریق پر مبنی ہے۔سیکولر ریاست میں مذہب کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 4۔سیکولرازم ایسا نظام ہے جو ایمان اور عبادت کی کسی صورت کو قبول نہیں کرتا۔بلکہ ان کی شدت سے مخالفت کرتاہے۔لہذاسیکولرازم اپنے مزاج کے اعتبار سے مذہب مخالف یادوسرے الفاظ میں لادین نظریہ ہے۔ سیکولرازم کااُردو میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ کیا ہے؟ اس سوال کے متعلق آج کل ہمارے اخبارات میں نئے سرے سے بحث کی جارہی ہے۔اردو میں عام طور پر اس کا مطلب"لادینیت" کیا جاتاہے ،مگر ہمارے دانشور،لادینیت،کوسیکولرازم کے مترادف کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔انگریزی صحافت کے معروف ترین دانشور جناب اردوشیر کاؤں جی(پارسی) نے اپنے ایک حالیہ کالم میں سیکولرازم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہےاس میں من جملہ دیگر باتوں ک ان کاارشاد ہے: "اردو زبان میں کوئی واحد لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے سیکولر کاترجمہ کیاجاسکے"(روزنامہ "ڈان" 25 جون 2000ء) روزنامہ پاکستان میں تنویر قیصر اردو زبان کی اس مبینہ تہی دامنی پر یوں افسوس کرتے ہیں : "یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اُردو زبان میں کوئی ایسی لغت ابھی تک مرتب نہیں کی جاسکتی ہےجو ہمیں سیکولرازم کی جامع اور واضح تعریف بتاسکے۔ہمارے ذہنوں میں اس لفظ کے بارے میں جو شکوک وشبہات ہیں ۔ان کا ازالہ کرسکے۔لے دے کرہمارے پاس مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردی لغت،قومی انگریزی اُردو لغت ہےجس کی تدوین معروف اور معزز سکالر جناب ڈاکٹر جمیل جالبی نے کی ہے۔اس لغت کے تیسرے ایڈیشن(1996ء) میں سیکولرازم کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے۔لادینی جذبہ یا رجحانات بالخصوص وہ نظام جس میں جملہ مذہبی عقائد واعمال کی نفی ہوتی ہے،اسے مزید یوں واضح کیا گیا ہے:یہ نظریہ کے عام تعلیم اورمغربی ماند بود کے معاملات میں مذہبی عنصر کو دخیل نہیں ہوناچاہیے۔(روزنامہ پاکستان:14 جون 2000ء)