کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 47
اسلام اور مغرب عطاء اللہ صدیقی سیکولرازم کا سرطان (پہلاحصہ) سیکولر ازم کا مفہوم گذشتہ پانچ صدیوں کے دوران مغرب کی سیاسی فکر میں اہم ترین تبدیلی ریاستی (لفظ مٹا ہوا ہے)سے مذہب کی عملا بے دخلی ہے،یہی امر سیکولر یورپ کا اہم ترین فکری،کارنامہ،بھی سمجھا جاتا ہے۔اس بات سے قطع نظر۔۔۔کہ جدید یورپ میں کلیسا کے خلاف شدید رد عمل کے فکری اسباب کیاتھے اور کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک طویل محاذ آرائی بالآخر موخرالذکر کی کامل فتح پر کیونکرمنتج ہوئی۔۔۔بیسوی صدی کے وسط میں استعماری یورپ کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے والی مسلمان ر یاستوں میں بھی یہ سوال بڑے شدومد سے زیربحث لایا گیا کہ مذہب کا ریاستی امور کی انجام دہی میں کیا کردار ہوناچاہیے۔مسلمان ملکوں کاجدید دانشور طبقہ جس کی سیاسی فکر کی تمام تر آبیاری مغرب کے فکری سرچشموں سے ہوئی تھی مسلمانوں کی ریاست میں اسلامی شریعت کو ایک سپریم قانون کی حیثیت دینے کوتیار نہ تھا،مذہب کے متعلق اپنے مخصوص ذہنی تحفظات کی وجہ سے وہ اسلام کومحض مسلمانوں کی انفرادی یا شخصی زندگی تک محدود دیکھنے کا خواہشمند تھا۔وہ اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق کو بھی مسیحی مغرب کے کلیسا اور ریاست کے تصادم کے تناظر میں بیان کرنے پر مصر تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے دینی طبقہ کے متعلق ان کے تاثرات کلیسا کے بارے میں مغربی دانشوروں کے تاثرات سے مختلف نہ تھے۔مغرب کے کلیسا دشمن دانشوروں نے جس جذباتی انداز میں اہل کلیسا کو جارحانہ تنقید کانشانہ بنایا تھا،تقریباً وہی ناقدانہ اسلوب مسلمانوں کے اس طبقہ جدید کابھی تھا۔وہ اپنے خود ساختہ مفروضات کی بناء پر شدید خدشات کاشکار تھے۔ان کا خیال تھاکہ اگر اسلام کو ریاستی امور میں بالادستی عطا کردی گئی تو دینی طبقہ کلیسا کی طرح روشن خیالی،آزادی اظہار اور ترقی پسندی کے تمام امکانات کو نہ صرف ختم کردے گا بلکہ روشن خیال طبقہ کو مذہبی آمریت کاتختہ مشق بھی بنایا جائے گا۔لہذا انہوں نے اسلام کی بجائے سیکولرازم کے نفاذ پرزوردیا۔یہ طبقہ اعدادوشمار کے لحاظ سے تو بہت قلیل تھا۔لیکن مغربی استعماری طاقتوں کے سیاسی جانشین ہونے کی وجہ سے اسے بے حد اثر ورسوخ حاصل تھا۔ان کے خیالات ،اُمنگیں اور فکری دھارے عوام کی اجتماعی فکر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔مسلمان عوام اسلام کے علاوہ کسی اور قانون کی برتری کاتصور تک قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔جدید طبقہ اور سواد اعظم کے نظریات میں اس واضح خلیج نے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں میں ایک نئے فکری تصادم کو جنم دیا،جس کی مختلف صورتیں آج بھی مسلم ریاستوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔