کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 41
آدمی کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ آئی۔میں نے انہیں کہا کہ چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں پھر لوگوں کو پوری بات سنائی۔اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ "ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جنتیوں والے اعمال کرتا ہے اور وہ جہنمیوں میں ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے اعمال کرتاہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔(متفق علیہ) 6۔منافقت /نفاق:ظاہر باطن سے مختلف ہو اور قول وفعل میں تضاد ہو۔جس انسان میں دو رخا پن یا اس کے ظاہر وباطن میں اختلاف پایا جائے وہ منافق ہوتاہے۔ جو انسان ریا کار اور دھوکے باز ہو وہ بھی منافق ہے۔عنقریب مرگ کے بعد اسے بھی رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور موت کی سختی کی وجہ سے اس پر موت کی ہچکیاں طاری ہوں گی۔دنیا میں آنے کے بعد سے انسان پر سب سےبڑی تکلیف کا وقت یہی ہوگا۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ: "جب انسان کا ظاہر وباطن ایک جیسا برابر ہوتو یہ انصاف اور عدل ہے اور جب باطن ظاہر سے بہتر ہوتویہ بہت بڑی فضیلت ہے۔اور جب ظاہر باطن سے مختلف ہوتو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔" صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور سلف صالحین اپنے آپ کے نفاق میں مبتلا ہوجانے سے بہت ڈرتے تھے اور اس سے ان کی تکلیف اورپریشانی شدت اختیار کرجاتی تھی۔ایک دفعہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتنوں اور منافقین کے متعلق رازدان رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ"کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا منافقین میں تو نہیں شامل کیا۔"حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ"نہیں لیکن میں آپ کے بعد کسی کی تصدیق نہیں کروں گا" مسند بزار میں بسند صحیح مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ"میں قریش میں زیادہ مال ودولت والا ہوں اور مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میرا یہ مال مجھے ہلاک ہی نہ کردے۔"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ تم صدقہ وخیرات کرو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"بے شک میرے بعض صحابی ایسے بھی ہیں جو مجھ سے اس جدائی کے بعد دوبارہ نہیں ملیں گے"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے نکلے اور ان کا دل خوف سے پارہ پارہ ہورہا تھا کہ ان کی ملاقات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ہے۔توانہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کےبارے میں بتایا۔وہ بھی گھبراگئے اورام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاکرعرض کرنے لگے کہ میں اللہ کے واسطے تم سے پوچھتا ہوں ،کیا میں ان میں سے تو نہیں ؟۔ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیاکہ: "آپ ان میں شامل نہیں ہیں اور آپ کے بعد میں کسی کی براءت نہیں کرتی" مسلمان بھائیو! یہ برے خاتمہ کے چند موٹے موٹے اسباب ہیں اور میں اپنے آپ کو اورآ پ سب کو اس بارے میں توجہ دلاتا ہوں ۔ کہ یہ اسباب کہیں ہم میں نہ ہوں ۔ہر ایک کو اس چیز کی تیاری کرنی چاہیے جو اس کے لئے بہتر ہے اور "عنقریب کروں گا" کہنے سے بچنے کی ضرورت ہے عمر تھوڑی ہے ،تیرا ہر سانس تجھے تیرے خاتمہ کی طرف بلارہا ہے ممکن ہے کہ تیری روح اسی حالت میں قبض کرلی جائے