کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 40
تیرےتلقین کرتے کرتے میں اپنی زندگی پوری کر جاؤں گا تو اپنے قدم میرے گالوں پر رکھ دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ یہ بدلہ ہے ایسے شخص کا جس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ میرے فوت ہونے کی کسی کو اطلاع نہ دینا کیونکہ لوگ میری کرتوتوں کو جانتے ہیں وہ ہر گز میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔پھر جب تو مجھے دفن کردے تو اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں اٹھا کر یہ کہنا کہ : "اے اللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوتو بھی اس سے راضی ہو جا!" جب ابان بن ابی عیاش اس عورت سے سوال کررہے تھے تو وہ مسکرارہی تھی ابان نے اس سے کہا: کہ اللہ کی بندی !مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟وہ عورت کہنے لگی ۔جب میں نے اپنے بیٹےکے دفن ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر کہا کہ" یاللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا جو اس نے مجھے وصیت کی تھی میں نے پوری کر دی " تب میں نے اپنے بیٹے کی آواز سنی کہ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ " میں اپنے رب کریم کے پاس پیش ہوا ہوں ۔میرا رب نہ مجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ غضبناک ۔۔۔اگر آدمی کے نفس میں عاجزی وانکساری موجود ہوتو وہ فوت ہوتے ہوتے وقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہوتوہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں "(میزان الاعتدال للذہبی وتہذیب التہذیب لابن حجر ،ترجمہ ابان بن ابی عیاش) 5۔خود کشی:مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اجروثواب کی اُمید رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب سے نوازتے ہیں اور اگر وہ جزع فزع کرے اور زندگی سے تنگ آجائے اور بیماریوں ،مصائب وآلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئےخود کشی کی راہ اختیار کرے تو ایسے آدمی نے یقیناً اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کےغضب کو پکارا اوربلاوجہ اپنے آپ کو قتل کردیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "جو کوئی اپنے آپ کو پھانسی دے گا،اسےجہنم میں پھانسی دی جائے گی اورجو اپنے آپ کو نیزہ مارکرختم کرے گا،اسے جہنم میں نیزے مارے جائیں گے" سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ کفار کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر سے جاملے،کفار بھی اپنا لشکر لے آئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جوبڑی دلیری سے ہرمسلح ،غیرمسلح کاپیچھاکرتا اور اپنی تلوار سے اس پر حملہ آور ہوجاتا ۔بعض لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس دلیر آدمی کے اجر کو نہیں پہنچ سکتا۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:"وہ جہنمی ہے۔"وہیں ایک آدمی نے اس کے بارے میں بتایاکہ"میں اس کے ساتھ نکلا۔جہاں وہ ٹھہرتا،میں بھی ٹھر جاتا جب وہ چلتا تو میں بھی اسکے ساتھ چل پڑتا۔حتیٰ کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوگیا اور اپنی تکلیف پر صبر نہ کرسکا۔اس نے اپنی تلوار زمین میں گاڑدی اور اس کی نوک پر اپنا پیٹ رکھ کر جھول گیا اور خود کشی کرلی۔یہ سب کچھ دیکھنے والا وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکرکہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:کس وجہ سے تو گواہی دیتاہے تو اس نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس