کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 4
2۔اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے دنیا کے ہر علاقہ میں مرد و زن کے امتیاز کے بغیر سستی لیبراور سستی افرادی قوت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔لہٰذا مذہبی اثرات کو زائل کر کے ہر مرد وعورت کو ورکر کی سطح پر لانا چاہتا ہے۔
پاکستان میں اس کانفرنس کی تیاری :
چھ سال قبل قاہرہ میں 1994ء میں منعقد ہونے والی بہبود آبادی کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان میں بہت سی این جی اوز (غیرسرکاری تنظیمیں )وجود میں آئیں ۔بیجنگ کانفرنس کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ملک میں فیملی پلاننگ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ۔جگہ جگہ بہبود آبادی سنٹر کھل گئے ستارہ اور چابی والی گولیاں (مانع حمل ادویات) ملک میں عام ہوئیں ۔ایڈز سے بچانے کے بہانے ملک میں ہم جنس پرستی کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کیا گیا ۔وطن عزیز میں بے حیائی و فحاشی کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ ٹی وی ڈش کیبل ،انٹرنیٹ ،فحش لٹریچر ،ماڈلنگ وڈیو گیمز وغیرہ کے ذریعے فحاشی کے مظاہربہت زیادہ بڑھ گئے۔
اغوا عصمت دری پھر گینگ ریپ اور گھروں سے دوشیزاؤں کے فرار کے واقعات میں معتدبہ اضافہ ہوا۔اسی پس منظر میں "صائمہ ارشد لومیرج کیس " بھی منظر عام پر آیا جس نے مغربی یلغارکو وطن عزیز میں مزید فروغ دیا۔ خواتین کے بینک اور خواتین پولیس سٹیشن قائم ہوئے۔
1994ءمیں حکومت پاکستان نے خواتین کی اصلاح و ترقی کے نام پر ایک "خواتین تحقیقاتی کمیشن "ترتیب دیا تھا اس کے ممبران میں زیادہ تراین جی اوز کے نمائندے شامل تھے خصوصاً عاصمہ جہانگیر (جویواین او کی باقاعدہ تنخواہ دارایجنٹ ہے اور جس کا مشن ہی پاکستان میں مغربی اباحیت کو فروغ دینا ہے) جیسے لوگ یہ رپورٹ تیار کر رہے تھے۔1997ءمیں انھوں نے رپورٹ پیش کی تھی ۔اس میں پاکستانی خواتین کے لیے بیجنگ کانفرنس والا ایجنڈاہی پیش کردیا ۔ اس کے بعد ان خواتین نےغیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف اس زور سے دہائی دی کہ موجود ہ حکومت نے 20/1پریل 2000ء کو ہونے والی انسانی حقوق کانفرنس میں ایسے قتل کوقتل عمدہ ٹھہرا کر اس کی سزا موت قراردے دی ۔ پھر پاکستان کی فوجی حکومت این جی اوکابینہ نے بلدیاتی انتخابات میں عورتوں کی پچاس فیصد نشستیں دینے کا اعلان کر کے اسی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا۔ حیرت ہے کہ ان اقدامات پر پاکستان میں بہت کم رد عمل دیکھنے میں آیا ۔بلکہ یہاں سے این جی اوز نے بیجنگ ڈرافٹ پر پیش رفت کے سلسلے میں باقاعدہ اپنی رپورٹ درج کروائی کہ یہاں بے نظیر بھٹوصاحبہ کے دور میں اس ایجنڈے پر تیز رفتاری سے عمل جاری رہا اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ،مگر نواز شریف کے دور میں ساری پیش رفت جامد ہوکر رہ گئی۔
سرکاری سطح پر کانفرنس کے لیے جوپاکستانی وفد نیویارک گیا ۔اس میں سماجی بہبود اور خواتین کی وزیر شاہین عتیق الرحمٰن ،ڈاکٹر یاسمین راشد ،زریں خالد ،ثمینہ پیرزادہ اور ڈاکٹر رخسانہ شامل تھیں ۔جبکہ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال اس کی سر براہ تھیں ان کے ساتھ کئی دانشور خواتین بطور مبصر بھی گئی تھیں کئی