کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 35
ہے۔اور یقین کمزورہے اوراترنے کی گھاٹی بہت مشکل ہے یاتو جنت کی طرف اور یا پھر جہنم کی طرف!" حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو فرمانے لگے کہ: "مجھے اٹھا کر بٹھا دو چنانچہ آپ کو بٹھا دیاگیا تو آپ اللہ کا ذکر اور تسبیح وتقدیس کرنے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ اے معاویہ!تو اپنے آپ کو گرتا ہوادیکھ کر اب اپنے رب کا ذکر کرنے لگا۔جب جوانی کی ٹہنیاں تروتازہ تھیں ،اس وقت تونے کیوں نہ سوچا اور پھر رونے لگے حتیٰ کہ رونے کی آواز بلند ہونے لگی اورپھر فرمانے لگے: "هو الموت لا منجى من الموت والذي, اُحاذر بعد الموت أدهى وأفظع" "موت سے کسی کو نجات نہیں جس موت سے میں ڈرتا ہوں وہ نہایت سخت اور ہولناک ہے" پھر کہنے لگے:اے اللہ! سیاہ کار اور سخت دل بوڑھے پر رحم وکرم فرما،اے اللہ! زادراہ تھوڑا ہے میری خطاؤں کو معاف فرما اور اسے بخش دے جس کا تیرے سواکوئی سہارا اور جائے پناہ نہیں " حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ جب وہ فوت ہونے کے قریب ہوئے تو اپنے محافظوں اور خادموں کو اپنے قریب بلا کر فرمانے لگے کہ کیا تم اللہ سے میرے متعلق کچھ کفایت کرسکتے ہو؟انہوں نے کہا:ہرگز نہیں ،تو فرمانے لگے:تم یہاں سے چلے جاؤ اور مجھ سے دور ہوجاؤ پھر انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور کہنے لگے کہ مجھےمسجد کی طرف لے چلو۔آپ کومسجد میں لایا گیا تو آپ فرمانے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھے حکم دیا اور میں تیری نافرمانیاں کرتارہا تو نے مجھے امانت سونپی اور میں خیانت کرتا رہا،تو نے میرے لئے حدود متعین کیں اور میں انہیں توڑتارہا۔اے اللہ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے میں آج تیرے سامنے پیش کرسکوں اور نہ کوئی طاقتور میری مدد کرسکتاہے ۔بلکہ میں تو گناہگار ہوں اور میری بخشش کاطلب گار ہوں اورمجھے اپنے گناہوں پر اصرار بھی نہیں اورنہ ہی میں تکبر کرنے والا ہوں ۔" (اغتنام الأوقات في الباقيات الصالحات ،ص 144 از شیخ عبدالعزیز سلمان) جب سلیمان تمیمی فوت ہونے کے قریب ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو،آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے ،وہ فرمانے لگے:تم مجھےایسے نہ کہو،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میرے لیے وہاں کیا ظاہر ہوگا۔اللہ فرماتے ہیں : ﴿ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ ﴾(الزمر:47) "اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہوگا،جس کا انہیں وہم وگمان بھی نہیں تھا" بعض اہل علم یوں کہہ کر فکر مندی کا اظہار کرتے کہ"وہ نیکیاں سمجھ کر اعمال کرتے رہے لیکن در اصل وہ برائیاں تھیں جو میدان حشر میں ان کے سامنے ظاہر کردی جائیں گی" عامر بن قیس بھی فوت ہونے کے وقت رونے لگے جب ان سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی توانہوں نے فرمایا:میں اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے رورہا ہوں : ﴿ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ