کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 33
کرلیے اور کوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔ اور یہ بات حدیث میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ(لوگوں کے) دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں ۔اللہ تعالیٰ جیسے چاہتاہے انہیں پھیر دیتاہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے کے بعد مرتدہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے: "يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ" "اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پرثابت رکھ" رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگئے اور نوراسلام سے نکل کر کفر کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن جحش بھی تھا۔اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھر وہ اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاد کیا۔اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں کئی لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔ان میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس چلاگیا اورجا کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔نعوذ باللّہ من ذلک(الاصابہ) ۔۔۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کادارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان ،نماز،روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو،اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کروگے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتاہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائےگا۔جیسے اونٹ کا پیٹ خالی ہوجاتاہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل وپھول تروتازہ ہوتے ہیں لیکن رات کو ان پر سخت آندھی چلتی ہے تو صبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں ۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منور اور صحیح سالم ہوتاہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھاجاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتاہے کیونکہ یہ اللہ عزیز وحکیم کا کام ہے۔اس لئے اللہ والے اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برانہ ہوجائے۔جواللہ سےدھوکہ کرنا چاہتاہے اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں ۔" حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: "اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوانہ کرے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت