کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 20
بجو(کی شکل میں مسخ ہوچکا) ہے تو اس سے لا تعلق ہوجائیں گے۔"
مصر کے مایہ ناز محقق علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق پر ہم اپنی بات کو ختم کرتے ہیں ،وہ لکھتے ہیں کہ:
ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر ہونا ہمارے نزدیک قطعی الثبوت ہےکیونکہ اس آیت میں قرآن نے صراحت کے ساتھ اس لفظ کو ذکر کیاہے جو معانی کے الفاظ پر دلالت کرنے کی قبیل سے ہے ،اور باقی رہاالفاظ کی تاویل اور ان کے ساتھ کھیلنا تو اسے کلام کےمعنی ومراد سے انکار کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتاہے،اور پھر اگر سابقہ کتب ے حوالے سے اہل نسب کے قول کے مطابق اس کانام تارح ہو یا نہ ہو،قرآن کی نص پر ایمان رکھنے کے سلسلے میں کوئی اثر نہیں رکھتا اور لفظ" لِأَبِيهِ "لغت میں اپنے وضعی معنی پرصاف دلالت کررہا ہے۔اور قرآن حکیم سابقہ ادیان کی کتابوں (میں درج چیزوں کی صحت پر)کسوٹی(مھیمن)ہے۔
علاوہ ازیں صحیح بخاری کی صحیح حدیث ہر طرح کے شک اورتاویل کو دور کردیتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ فَتَرَةٌ قَتَرَةٌ ٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لا تَعْصِنِي،(رواه البخاری)
"حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزرسے قیامت کےروز ملاقات کریں گے تو آزر کے منہ پر ضعف وانکساری اور اور سیاہی نمایاں ہوگی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے کہیں گے:کیا میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ میری نافرمانی نہ کر؟۔۔۔الخ"
اور اس نص کے بعد اس مسئلے کو کھیل بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(حاشیہ زاد المسیر فی علم التفسیر ،جلد سوم ،صفحہ 70)
باقی رہا معاملہ نسب کا تو علمائے کرام کی تصریحات کے مطابق ضروری نہیں کہ عمدہ اور عالی نسب والاایمان دار بھی ہوآکرابو لہب بھی تو عالی نسب ہاشمی مطلبی تھا،لیکن قرآن نے اس کے متعلق جو کچھ بیان کیاہے وہ سب جانتے ہیں ۔اور اسی طرح حضرت نوح کی بیوی اور ان کے بیتے کے متعلق قرآن میں صاف مذکور ہے کہ وہ ایمان سے محروم تھے۔اسی طرح حاتم طائی کتنا اچھا انسان تھا لیکن جب اس کی بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنے باپ کے اوصاف بیان کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
ان هذِهِ صفاتُ المُؤمنِينَ حَقَّا، لو كانَ أَبُوكِ مُسْلمِاً لَتَرَحَّمْنَاعليه
"واقعی یہ مومنین کی صفات ہیں ،اگر تیرا باپ مسلمان ہوتا تو ہم اسے رحمۃ اللہ علیہ کہتے"
اس قدر دلائل کے بعد ابراہیم کے والد کے نام کے بارے میں شک وشبہ کاشکار ہونے کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔نہ ہی اس ا مر کی کہ ان کا باپ مسلمان تھا یا نہیں ۔اصل میں یہ سب اس مفروضے کا شاخسانہ ہے کہ نسب بھی انسان کے انجام میں اثر انداز ہوتا ہے جبکہ شریعت کی روشنی اس بارے میں بالکل واضح ہے ۔اس مفہوم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث دلا لت کرتی ہیں (صحیح بخاری۔حدیث 4771)