کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 18
الغرض قرآن مجید میں بہت سی آیات میں : ابانا اوراباه اورابونا،ابوكم،ابوھما،ابي ،ابیه کے الفاظ آئے ہیں ۔تمام مترجمین نے ان کے معنی باپ ہی کئے ہیں حتیٰ کہ احمد رضا خان بریلوی نے بھی:"البتہ جب اب کی جگہ اباہ کا لفظ آئے گاتو اس میں دادا،چچا سب مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ کسی آدمی کا ایک ہی حقیقی باپ ہوسکتا ہے ،زیادہ نہیں "۔۔۔قرآن میں ہے: ﴿ لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ﴾ (المجادلہ:22) "(اے میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) تو اس قوم کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے ان لوگوں سے دوستی گانٹھے ہوئے نہ پائے گا جو اللہ اوراس کے رسول سے خار رکھے،اگرچہ وہ ان کے باپ دادے ہی کیوں نہ ہوں " اس آیت سےمعلوم ہوا کہ ایمانداروں کے سلسلہ نسب میں ایمان سے محروم افراد بھی ہوسکتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے با پ کے تذکرے میں ہے(التوبہ:114) ﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ ﴾ "اور(حضرت) ابراہیم کا اپنے با پ سے کئے وعدے کے مطابق استغفار ایک وقت تک تھا جب اسے آشکارا ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے لاتعلق ہوگئے" اگر بریلویوں کے مطابق یہ ابراہیم علیہ السلام کاباپ نہیں بلکہ چچا تھا(حالانکہ یہ قرآن کے خلاف ہے)تو پھر بھی یہ ثابت نہیں کہ آزر کو عذاب نہ ہوگا کیونکہ چچا بھی باپ کی طرح ہوتا ہے ،حدیث میں ہے : "عم الرجل صنوابيه"اگر باپ کو پیغمبر بیٹے کی رعایت حاصل ہے تو چچا کو بھی حاصل ہونی چاہیے لیکن ایمان سے محروم کےلیے بارگاہ الٰہی میں کوئی رعایت نہیں خواہ باپ ہو یاچچا۔ اب ہم مفسرین اور مورخین کے اقوال کی طرف آتے ہیں ۔اگرچہ کسی سچے مومن کے ہاں اللہ کے فیصلے کے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کی گنجائش نہیں تاہم جب مفسرین اور مورخین کی آراء میں تضاد ہو توفیصلہ کےلئے قرآن میں اللہ کا فرمان موجودہے اور مومن کے لئے وہی کافی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ واقعی ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے نام کے بارے میں ماہرین انساب اور مورخین میں اختلاف ہے۔مولانا ابو الکلام آزاد اور علامہ سیوطی وغیرہ نے آزر کی بجائے تارح کو ترجیح دی ہے لیکن نام آزر ہویا تارح ،وہ تھا ابراہیم علیہ السلام کاباپ ہی ،چچا نہیں تھا۔ چنانچہ امام ابن جوزی اپنی تفسیر زاد المسیر میں لکھتے ہیں ۔ آزر کے بارے میں چار اقوال ہیں ، پہلا یہ ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تھا،یہ بات ابن عباس،حسن سدی ،ابن اسحاق وغیرہ نے کہی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک بت کا نام تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارح تھا،یہ بات مجاہد نے کہی ہے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ نام نہیں بلکہ اس کی مذمت کے لیے یہ لفظ بولا گیاہے۔اور مقاتل بن حیان نے یہ کہا ہے کہ یہ ان کے باپ کا نام نہیں بلکہ لقب تھا۔