کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 15
اس کے لئے محدث کے اگست اور ستمبر،اکتوبر 1986ء کے شمارے ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں جن میں تفصیل کے ساتھ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ضمیر مجرور پراسم ظاہر کے عطف کا قاعدہ کوفی اور بصری علماء کے ہاں اختلافی ہے اور ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ ضمیر مجرور پراسم ظاہر کا عطف حرف جرد ہرائے بغیر ہوسکتا ہے۔اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ عربی دانی کی خوش فہمی میں مبتلا ضرور ہیں ،لیکن در حقیقت یہ عربی زبان سے نابلد ہیں ،اور اس زبان کے قواعد کو سمجھنے سے بہت دور ہیں ۔اور اس پر اظہار ندامت کی بجائے دوسروں پراعتراض کرنے کی تگ ودود میں رہتے ہیں ،اور ایسے وقت میں اصل کتاب کی طرف مراجعت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے،اور کم علمی کی وجہ سے عربی زبان کے قواعد کی تعبیر میں ایسی غلطیاں کرتے ہیں جن پر عربی زبان کا ادنیٰ طالب علم بھی سر پیٹ کررہ جاتا ہے۔ چنانچہ آ پ عربی گرائمر کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجئے آ پ کو یہ قاعدہ کہیں دستیاب نہیں ہوگا کہ اسم ضمیر پر اسم ظاہر کا عطف نہیں ہوسکتا،کیونکہ علمائے نحو کےدرمیان محل نزاع ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کے عطف کا قاعدہ ہے۔جبکہ ضمیر مرفوع اور ضمیر منصوب پر اسم ظاہر کا عطف بالاتفاق جائز ہے۔اگرچہ ضمیر مرفوع متصل پر اسم ظاہر کے براہ راست عطف کے وقت ضمیر منفصل بطور تاکید لانا ضروری ہوتاہے لیکن پروفیسر مذکور ہر ضمیر پر ہی اسم ظاہر کےعطف کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ۔حالانکہ ضمیر پر اسم ظاہر کے عطف کی بیسیوں مثالیں قر آن کریم سے دی جاسکتی ہیں ۔بنا بریں پروفیسر صاحب نے عربی زبان کے قاعدے کی غلط تعبیر کرکے اپنے علم کو لیک لگالی ہے۔ اور ان کی فہم وفراست کا حال یہ ہے کہ وہ علیٰ حرف جردہرانے کے ساتھ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو درود کی صحیح عبارت تسلیم کرتے ہیں ،مگر حرف جرد دہرائے بغیر"صلی اللہ علی وآلہ وسلم" کے بارہ میں عجیب مخمصے کا شکار ہیں اور فرماتے ہیں : "عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگرآل کے شروع میں حرف جاردوبارہ لایا جائے تو پھر درود شریف میں آل کے لفظ کے اضافے میں کوئی حرج نہیں ،لیکن جن لوگوں کا عقیدہ چہاردہ" معصومین کا ہے وہ لفظ آل سے پہلے حرف علیٰ دوبارہ استعمال نہیں کرتے۔اس طرح آل کو بھی نبوت میں شریک سمجھا جاتا ہے"(طلوع اسلام،صفحہ 47) پروفیسر صاحب کی یہ منطق بھی نرالی ہے کہ درود کی عبارت میں علیٰ حرف جر کا اضافہ نہ کیا جائے تو آل بھی نبوت میں شامل ہوجاتی ہے۔لیکن اگر اس میں علیٰ داخل کردیا جائے تو اس وقت آل نبوت میں شریک نہیں ہوتی گویاحرف علیٰ آل کی نبوت میں شرکت کےورے سد سکندری کا کام دیتا ہے۔حالانکہ عربی گرائمر کے مطابق علیٰ حرف استعلاء ہے جو بلندی کا معنی دیتاہے۔پروفیسر صاحب کی منطق