کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 71
(۵) جادو کی جگہ کا دو باتوں سے پتہ چل سکتا ہے: ٭ ایک تو یہ کہ خود جن بتا دے کہ اس نے فلاں جگہ پر جادو رکھا ہوا ہے، ا ور آپ اس کی یہ بات اس وقت تک درست تسلیم نہ کریں جب تک ایک آدمی بھجوا کر اس کی بتائی ہوئی جگہ سے جادو کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق نہ کروا لیں ، کیونکہ جنوں میں جھوٹ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ٭ مریض یا معالج کسی فضیلت والے وقت میں (مثلاً رات کا آخری تیسرا حصہ) پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعات نفل ادا کرے اور اللہ سے دعا کرے کہ وہ جادو کی جگہ کے متعلق اسے خبر دار کردے، آپ کو خواب کے ذریعے یا احساس و شعور کے ذریعے یا غالب گمان کے ذریعے معلوم ہوجائے گا کہ جس چیز پر جادو کیا گیا ہے وہ فلاں جگہ پر پڑی ہوئی ہے، اگر ایسا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے۔ (۶) جادو کی تمام قسموں کے علاج کے لئے آپ کلونجی کے تیل پردم کرسکتے ہیں جسے مریض متاثرہ عضو پر صبح و شام مل سکتا ہے۔ صحیحین میں ایک حدیث موجود ہے جس کے الفاظ یوں ہیں : ’’ الحبّۃ السوداء شفاء من کلّ داء إلا السام‘‘[1] ’’کلونجی میں ہربیماری کا علاج ہے سوائے موت کے‘‘ مریضہ کواللہ نے جائے جادو دِکھا دی میرے پاس ایک نوجوان لڑکی آئی، میں نے اس پر قرآنِ مجید کو پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس پر بہت طاقتور قسم کا جادو کیا گیاہے، کیونکہ اسے نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں خیالی تصویریں اور سائے نظر آتے تھے… خلاصہ یہ کہ میں نے اس کے گھر والوں کو علاج بتا دیا اور گھر واپس جانے کی تلقین کی، انہوں نے پوچھا: کیا ہم جائے جادو کے متعلق جان سکتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں ، رات کے آخری تیسرے حصے میں جبکہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پرنازل ہوتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو جائے جادو کے متعلق خبردار کردے، چنانچہ خود مریضہ لڑکی نے رات کو اُٹھ کر نماز پڑھی اور اللہ سے اس سلسلے میں دعا کی، پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اس کے ہاتھ کو پکڑ کر گھر کی ایک جانب لے جارہا ہے او راسے جائے جادو کے متعلق بتا رہا ہے، صبح ہوئی تو اس نے اپنے گھروالوں کو یہ خواب سنایا، چنانچہ وہ اسی جگہ پر گئے تو جس چیز میں جادو کیا گیا تھا وہ وہاں موجود تھی، انہوں نے اسے وہاں سے نکال دیا، اور اس طرح جادو ٹوٹ گیا اور لڑکی شفایاب ہوگئی۔ والحمدللہ ربّ العٰلمین! (۹۳) الترمذی، حسن صحیح … (۹۴) احمد، النسائی، اس کی سند بھی اچھی ہے… (۹۵) النہایۃ، ج۱ ص۴۶۹… (۹۶) ابن ماجہ (۲۳۴۰،۲۳۴۱)، الصحیحۃ للألبانی (۲۵۰)، الارواء (۸۹۶)…(۹۷) البخاری (۵۶۸۷)، مسلم (۲۲۱۵)
[1] البخاری (۵۶۸۷)، مسلم (۲۲۱۵)