کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 66
پہنچاؤ، جن نے میری بات مان لی اور اس سے نکل گیا، جس کے بعد اس کا منہ بالکل سیدھا ہوگیا الحمدﷲ چوتھا نمونہ:میرے پاس ایک لڑکی کا والد آیا اور اس نے اپنی بیٹی کی حالت یوں بیان کی: میری بیٹی ایک اندوہناک حادثے سے دوچار ہوگئی ہے اور دو ماہ سے بے ہوش پڑی ہے، اب سن تو لیتی ہے لیکن بول نہیں سکتی، اس کے جسم کا کوئی حصہ حرکت نہیں کرتا، اور کچھ کھا بھی نہیں سکتی، اور اس وقت اَبہا شہرکے عَسیر ہسپتال میں پڑی ہے جہاں ڈاکٹروں نے اسے نیند آور گولیاں کھلا کر سلا دیا ہے اور ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا ہے کہ اس کے سارے ٹیسٹ بالکل درست ہیں ، اور انہیں کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ اسے کیا ہواہے؟ البتہ انہوں نے اس کے نرخرے میں ایک سوراخ کر دیا ہے تاکہ وہ سانس لے سکے، اور ناک سے ایک پائپ داخل کردیا ہے تاکہ اسے غذا دی جاسکے اور وہ اپنی زندگی کے باقی اَیام اسی حالت میں اور اسی چارپائی پر پڑی گزار دے‘‘ میں نے اس لڑکی کا قصہ سنا، اور اگر شیخ سعید بن مِسفر قحطانی حفظہ اللہ کی خصوصی سفارش نہ ہوتی تو میں اس کا علاج کرنے کے لئے خود چل کے اس کے پاس نہ جاتا کیونکہ یہ میری عادت نہیں ۔ سو مجھے مجبوراً جانا پڑا، ہسپتال سے خصوصی طور پر میرے لئے اجازت نامہ لیا گیا کہ میں ملاقات کے اوقات کے علاوہ دوسرے وقت میں جاکر مریضہ کا علاج کرسکوں ۔ میں گیا تو واقعتا اس کی حالت وہی تھی جو اس کے والد نے بیان کی تھی، انتہائی کمزور ہوچکی بھی تھی البتہ بولتی نہیں تھی۔ میں نے اس سے جادو کی کچھ علامات کے متعلق سوال کیا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور مجھے کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ اسے کیا ہے۔ اس دوران مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ چنانچہ میں نے نماز میں اس کے لئے دعا کی، پھر واپس لوٹے اور سورۃ الفلق کو اس پر پڑھا، نیز یہ دعا بھی پڑھی: ’’اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ، اَذْھِبِ الْبَأْسِ، وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ، لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُکَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا‘‘ وہ لڑکی اللہ کے فضل و کرم سے بولنے لگ گئی، اس کا باپ او ربھائی خوشی کے مارے رونے لگ گئے۔ اور اس کا باپ میرے سر کا بوسہ لینے کے لئے اٹھا، میں نے اسے سمجھایا کہ کسی شخص کے متعلق یہ عقیدہ نہ رکھو کہ وہ شفا دے سکتا ہے کیونکہ شفا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اسی نے یہ لکھ رکھا تھا کہ تمہاری بیٹی کو میرے ہاتھوں اور اس گھڑی میں شفا نصیب ہوگی، سو اللہ کا شکر ادا کرو!! اس لڑکی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہنے لگی: اب میں ہسپتال سے جانا چاہتی ہوں ۔ اس کے بعد ایک مدت گئی، پھر اس کا بھائی آیا اور اس نے خوشخبری دی کہ اب وہ لڑکی خیریت سے ہے اور وہ مجھے دعوت دینے آیا ہے، میں نے ا سے انکار کردیا، اس خدشہ کی بنا پر کہ کہیں یہ دعوت میرا معاوضہ نہ بن جائے۔ پانچواں نمونہ:ایک نوجوان مرض کی حالت میں میرے پا س آیا، میں نے اس پر قرآنِ مجید کو پڑھا تو اس کی زبان پر جن بولنے لگ گیا، اور اس نے بتایا کہ فلاں جادوگر نے اس نوجوان پر جادو کرنے