کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 60
کے ذبح کرنے کے حکم کی تعمیل میں کسی بھی گائے کو ذبح کیا جاسکتا تھا مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی دی گئی سہولت سے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنے آپ کو خود تنگی و مشکل میں مبتلا کیا۔ انہوں نے تشدد کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ سورۃ البقرہ کی آیات نمبر ۶۸ تا ۷۰ کی تفسیر کے تحت قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی تحریر کرتے ہیں :
’’اس گائے کی صفات کے طالب ہوئے اور یہ ان کی بڑی حماقت تھی… ابن جریر رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت ﴿وِلِلّٰہِ عَلیٰ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ﴾ ’’اللہ کے لئے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے‘‘ نازل ہوئی تو عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا، پھر پوچھا، پھر بھی آپ نے بولے جب تیسری دفعہ پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سال فرض نہیں اور فرمایا :اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم سے نہ ہوسکتا‘‘[1]
سوالات کرنے سے اس وقت منع کیا گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور وحی الٰہی کا سلسلہ جاری تھا اور اس طرح کے سوالات کے جواب میں وحی نازل کی جاسکتی تھی لیکن پھر بھی سوالات سے منع کرنے کی حکمت یہی بتائی گئی ہے کہ جو باتیں نہیں بتائی گئیں وہ عمداً نہیں بتائی گئیں اور اس لئے نہیں بتائی گئیں کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ایسی باتوں میں عقل و شعور اور تجربات سے کام لے کر اپنی آزادی سے کوئی کام کرلیں یا چھوڑ دیں ۔ ان میں باریکیاں پیدا کرکے اپنے آپ کو پابند کرنا اور تنگی و مشکل میں ڈالنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نہ صرف یہ کہ ناپسندیدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے جیسا کہ ابن کثیر کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا مجرم ہے جس کی وضاحت طلب کرنے پر حلال چیز حرام ہوگئی اور جس کی وجہ سے لوگ تنگی میں مبتلا ہوئے اور دوسری تفسیر میں ایسے لوگوں کے اس فعل کو حماقت قرار دیا گیا ہے لہٰذا قرآن و حدیث کی یہ وعیدیں ان لوگوں کے غوروفکر کے لئے ہیں جو اسلامی نظامِ حکومت کے سلسلے میں ان ضابطوں اور انداز کو اسلامی قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جن ضابطوں کو اسلام نے صراحۃ معین نہیں کیا اور جن کو ملک کے حالات اور مقتضیات کے مطابق تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ نظامِ حکومت کے بارے میں چند بنیادی اُصول بتا کر تفصیلات اور جزئیات بتانے سے گریز کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو آزاد رکھا گیا ہے کہ ہر ملک اپنے حالات اور تقاضوں کے مطابق اساسی اصولوں کے تحت جن ضابطوں اور طریقوں کو اختیار کرنا چاہیں ، کرسکتے ہیں ۔ دوسرے ممالک کے تجربات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔
علم و حکمت مؤمن کی گمشدہ چیز ہے وہ اس کو جہاں پائے اس کے لینے کا وہی زیادہ حقدار ہے۔ جنگوں کے مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مشرکین کے اچھے طریقوں سے استفادہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین نے ریاست اور حکومت کے معاملات میں بھی جو اچھے طریقے دوسری
[1] قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی، تفسیر مظہری، جلد اول، ص۱۳۶، ایم سعید اینڈ کمپنی، کراچی، جنوری ۱۹۸۰ء