کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 6
دانشمندانہ نہیں ۔پاکستان میں عہد ایوبی میں جب عائلی قوانین نافذ ہوئے تھے،اس وقت بھی کبار علماء نے ان کے خلاف احتجاج کیا تھا جو تاریخ کا حصہ ہے۔افسوس کہ آج تک کسی حکومت کو ان کی اصلاح کی توفیق نہ مل سکی۔ سوال۔ایک لڑکی نے بچپن میں اپنی نانی کادودھ پیا تھا،کیفیت یوں تھی کہ بچی کے رونے پر وہاں پر موجود لڑکی کی نانی نے اپنا دودھ بچی کے منہ میں ڈال دیا۔بچی نے دودھ پی کرقے کردی۔اس کے بعد بچی کا منہ انگلی سے اندر سے بھی صاف کردیا۔اس صورت میں لڑکی کی شادی اس کے خالہ زاد سے ہوسکتی ہے؟جبکہ دودھ پینے کی صورت میں دونوں کا رشتہ خالہ بھانجے کا بنتا ہے۔(ارشد جاوید،لاہور) جواب:اس صورت میں راجح مسلک کے مطابق حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کم از کم پانچ دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت میں اس امر کی تصریح موجود ہے لہذا مذکورہ صورت میں نکاح ہوسکتا ہے۔ سوال۔کسی شخص کا اپنی بیوی کو چند افراد کی موجودگی میں یہ کہنا کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے،کیا طلاق کے زمرے میں آتاہے؟جبکہ بعد ازاں وہ شخص یہ کہتا رہے کہ میں نے تمہیں ساری زندگی تنگ کرنا ہے اور تمہیں طلاق نہیں دینی۔اس صورت میں عورت کے لیے کیا حکم ہے؟(کنیز فاطمہ،گلبرگ لاہور) جواب۔خاوند کا بیوی کو یہ کہنا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے ،بعینہ طلاق ہے ،بعد میں پھر جو یہ کہا کہ میں نے اس کو طلاق نہیں دینی،یہ اس کی بےوقوفی ہے کیونکہ طلاق کا مطلب عورت کو چھوڑ دینا ہے۔سو مذکورہ الفاظ سے مقصود حاصل ہے۔قرآن میں ہے کہ"اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو کہہ دیں ،اگر تم دنیا کی زندگانی اور اس کی زینت چاہتی ہو توآؤمیں تمہیں چھوڑ دوں ،چھوڑنا اچھا"(سورۃ الاحزاب:28) یہ آیت ازواج مطہرات کو طلاق دینے کے بارے میں اتری ہے۔مگر طلاق کی بجائے چھوڑنے کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی ایسا لفظ جس کا مطلب چھوڑنا ہو،اس سے طلاق واقع ہوجائےگی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے اپنی بیوی چھوڑنے کی نیت سے حبلك علي غاربك کہہ دیا کہ "تیری رسی تیرے کندھے پر"تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق یہی فتویٰ دیاکہ تیری عورت تجھ سے جدا ہوگئی۔۔۔لہذا مذکورہ بالا صورت میں عورت شوہر کی زوجیت سے آزاد ہے،عدت گزار کر جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کرسکتی ہے۔ سوال۔ہر رکعت میں تعوذ پڑھنا مسنون ہے یا صرف پہلی رکعت میں ہی اور باقی میں صرف بسم اللہ ہی شروع کردیں ،اسی طرح ہر تشہد میں درود اوردعائیں پڑھنا مسنون ہے یا صرف آخری تشہد میں ہی؟ جواب۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح حدیث کی بناء پر زیادہ واضح بات تو یہ ہے کہ تعوذ صرف ایک دفعہ پڑھی جائے۔حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: "إِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ ، اسْتَفْتَحَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَلَمْ يَسْكُتْ "(61/1) "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت میں اٹھتے تو خاموش ہوئے بغیر فوراً قراءت شروع کردیتے" تشہد اول میں حدیث فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ سے عموم کی بناءپر درود پڑھنے کا تو جواز ہے۔لیکن عمومی وبائیں آخری تشہد میں ہی پڑھنی چاہئیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے(رواہ الجماعۃ البخاری والترمذی بحوالہ منتقیٰ)"جب ایک تمہارا تشہد اخیرین سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے۔۔۔الخ"