کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 59
نے تفصیلی ہدایات اس لئے نہیں دیں کہ ان میں اپنی عقل و شعور کو استعمال کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ نے اس بات کو کئی مواقع پر واضح کیا ہے اور حجۃ اللہ البالغہ میں تیسیر کو مستقل موضوع بنا کر اس پر تفصیل سے بحث کی ہے بلکہ اس اصول کو شریعت کا اَصل ُالاصول قرار دیا ہے کہ آسانی اور سہولت پیدا کی جائے، تنگی اور مشکل میں مبتلا نہ کیا جائے …وہ تحریر کرتے ہیں : ’’ایک اور آیت ہے ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ ’’اللہ تعالیٰ تو تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے، وہ یہ نہیں چاہتا کہ تم کو تکلیف دے‘‘ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو عامل مقرر کرکے صوبہ یمن میں بھیجنا چاہا تو آپ نے انہیں وصیت کی کہ ’’لوگوں کے ساتھ آسانی کا برتاؤ کرو، ان کو تکلیف میں مت ڈالو اور ایک دوسرے کا کہنا مانو، ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو‘‘[1] جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو اس وقت سوال کیا گیا کہ کیا ہر سال ہمارے ذمہ حج فرض ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ ہے : ’’اے ایمان والو! اایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر کھولی جائیں تو تمہیں بری لگیں ‘‘ (سورۃ المائدہ: ۱۰۱) …اس آیت کی تفسیر کے تحت حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کی وجہ سے ایک غیر حرام چیز بربناء وضاحت حرام ہوگئی اور لوگوں پر تنگی پیدا ہوگئی… اگر کتاب میں کچھ مذکور نہ ہو اور تم نے کیا تو تمہارے عمل کی تم سے باز پرس نہیں تو تم بھی کسی سوال سے متعلق چپ سادھ لیا کرو… میں بعض باتوں سے عمداً ساکت ہوں ۔ یہ تم پر اقتضائِ رحمت کی بناء پر ہے ، میں بھول جانے کے سبب ساکت نہیں ہوا‘‘[2] سورۂ مائدہ کی اسی آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی تحریر کرتے ہیں : ’’خدانے جس چیز کو کمالِ حکمت و عدل سے حلال یا حرام کردیا، وہ حلال یا حرام ہوگئی اور جس سے سکوت کیا، اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔ مجتہدین کو اجتہاد کا موقعہ ملا، عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے اور اگر ایسی چیزوں کی نسبت خواہ مخواہ کھود /کر ید اوربحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا حالانکہ قرآن شریف ناز ل ہو رہا ہے اور تشریح کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جوابات میں ایسے اَحکام نازل ہوجائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائش اجتہاد باقی نہ رہے‘‘[3] اسی طرح قرآنِ کریم کی سورۃ البقرہ میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کو جب گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ گائے کے متعلق مختلف سوالات کرنے لگے کہ وہ کس طرح کی ہو، کس رنگ کی ہو، وغیرہ۔ ان کے اس طرح کے سوالات کوبارگاہِ خداوندی میں ناپسند کیا گیا۔ اس لئے کہ گائے
[1] شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البالغہ، جلد اول (اردو ترجمہ)، ص۵۴۴، قومی کتب خانہ لاہور، دسمبر ۱۹۸۳؁ء [2] حافظ ابوالفداء، ابن کثیر۔تفسیر ابن کثیر، جلد دوم، ص ۲۶، نورمحمد کارخانہ ٔ تجارت، کراچی [3] شبیراحمدعثمانی، قرآن حکیم ترجمہ شیخ الہند والتفسیر، ص ۱۶۵، تاج کمپنی، کراچی