کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 58
نہیں ہوتا۔ تغیر و تبدل اور تجدد یعنی نئی نئی صورتوں کا پیش آنا، یہ واقعات اور حوادث پر ہوتا ہے جو انہی کلیات کے اندر مندرج ہوتے ہیں … انہی اصولوں کی بنا پر ہمارے فقہاء نے فتاویٰ کا پورا دفتر مرتب کیا ہے، جس کے مطابق ہر زمانے میں ہر صورت کا جواب دیا جاسکتا ہے اور جس پردنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی عظیم الشان حکومتیں اور عدالتیں قائم ہوئیں ‘‘[1]
نظامِ حکومت کے بارے میں قرآن و حدیث میں صرف بنیادی اُصولوں کا ذکر کردیا گیا ہے جن میں سے ایک بنیادی اور اہم ترین اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ ہے۔ اس اصول کو جڑ اور بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر تمام اصول اس ایک اصول سے ہی شاخوں کی طرح پھوٹتے ہیں ۔ جو اصول نہیں بتائے گئے، ان کا شمار مباحات میں کیا جاتا ہے اور یہ حالات اور مقتضیات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔نظامِ حکومت کے سلسلے میں مباحات کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ صرف نظامِ حکومت ہی نہیں زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ایسی ہی صورت معلوم ہوتی ہے۔ مولانا تقی عثمانی تحریر کرتے ہیں :
’’اَحکام ہر دور میں ناقابل تغیر ہیں ۔ البتہ جو چیزیں مباحات کے ذیل میں آتی ہیں ان میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وقت اور زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے انہیں اختیار یا ترک کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور دیکھا جائے تو زندگی کے ایسے مسائل تعداد میں بہت کم ہیں جن کے بارے میں نصوصِ شریعت نے فرض و واجب، مسنون و مستحب یا حرام و مکروہ ہونے کی صراحت کی ہے اور جو ناقابل تغیر ہیں اس کے برعکس زندگی کی بیشتر چیزیں مباحات میں داخل ہیں اور ان کو ترک و اختیار کے فیصلے ہر وقت بدلے جاسکتے ہیں ‘‘ [2]
حفظ الرحمن سیوہاروی خلافت کے نظام کو قرآن و حدیث کے اَساسی اصولوں کے مطابق چلانے پر زور دینے کے ساتھ ہی مزید وضاحت کے لئے تحریر کرتے ہیں :
’’اسلام میں قیاسِ صحیح اور اجتہاد کو بہت اہم جگہ حاصل ہے اور اس کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اُصول اور اساسی قوانین میں ادنیٰ سا تغیر بھی نہیں ہوسکتا اور ان ہی قوانین کی روشنی میں ایسی جزئیات اور تفصیلات اور ایسے احکام استخراج و استنباط کئے جائیں جو ایک جانب تو ان اَساسی اصولوں کے ماتحت ہوں اور دوسری جانب مقتضیاتِ وقت اور حادثات کا بہترین حل کرتے ہوں ‘‘[3]
تفصیلات سے گریز کی حکمت
اگرچہ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کے بارے میں ضابطے اور اُصول معین کردیئے ہیں اور اس لحاظ سے اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے لیکن اسلام کی منشا یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کے ماننے والوں کو اتنا بھی نہ جکڑ دیا جائے کہ وہ اسلامی زندگی گزارنے میں مشکل اور تنگی محسوس کریں اور ہر ہر بات میں پابند بن کر رہ جائیں ۔ اسلام سہولت اور آسانی بھی عطا کرنا چاہتا ہے۔ بعض باتوں میں اسلام
[1] سید سلیمان ندوی، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد ہفتم، ص۱۹۹، مجلس نشریات اسلام، کراچی ۱۹۸۴ء
[2] ماہنامہ ’’فکر و نظر‘‘ (نفاذ شریعت نمبر) محمد تقی عثمانی کا مضمون، ص۹۲، اسلام آباد، مارچ ۱۹۸۳ء
[3] حفظ الرحمن سیوہاروی، اسلام کا اقتصادی نظام، ص۱۲۳، مکتبہ امدادیہ، ملتان