کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 57
کنٹرول حاصل نہیں ۔ رائے دہندگان حق ہدایت (Initiatives) اور حق استصواب (Plebiscite) کے ذریعہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں ۔ سوئٹزر لینڈ کے نظام حکومت کی ایک اور منفرد خصوصیت تکثیری عاملہ (Plural Executive) ہے ۔دیگر ممالک میں انتظامیہ کا سربراہ ایک شخص ہوتا ہے لیکن اس ملک میں انتظامیہ کے اختیارات سات رکنی ادارے وفاقی کونسل کے پاس ہوتے ہیں ۔ کونسل کے تمام اَرکان ایک ٹیم کی حیثیت میں فیصلے کرتے ہیں ۔ پارلیمانی و صدارتی نظام کی خصوصیت کے پہلو سے ہر ملک اپنے اپنے حالات کے مطابق اُصول بناتا ہے، اسی طرح دیگر خصوصیات کے پہلو سے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فرق پایا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت اور ایک ہی دور میں دنیا کے ملکوں میں نظامِ حکومت کی خصوصیات کے سلسلے میں فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ عقلی طور پر کسی ایک ہی نظامِ حکومت کو معین کرکے معیاری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب ایک دور میں تمام ممالک کے لئے ایک ہی نظامِ حکومت کا تعین مشکل ہے تو زمانے کے گزرنے کے ساتھ تو حالات میں اور بھی زیادہ تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔ تین سو سال پہلے حکومت چلانے کے جو اصول اور طریقے رائج تھے، وہ آج کی جدید دنیا میں متروک ہوچکے۔ برطانیہ جس کا نظامِ حکومت آج بہت کامیاب خیال کیا جاتا ہے، میں پہلے مطلق العنان بادشاہت تھی پھر مطلق العنان بادشاہ کے اختیارات محدود ہوتے چلے گئے اور پارلیمنٹ اختیارات حاصل کرتی چلی گئی، آج صورتِ حال یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کو لا محدود اور مطلق العنان اختیارات حاصل ہیں ۔ لیکن کیا یہی صورت حال باقی رہے گی؟ اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا کے ملکوں کے حالات اور نظاموں کے تبدیل ہونے میں بعض اوقات زیادہ وقت نہیں لگتا۔ تازہ ترین مثال روس کی ہے۔ صرف چند سال پہلے تک اس کا نظریہ اور نظام حکومت کتنا مستحکم اور قابل تقلید خیال کیا جاتا تھا۔ وہ دنیا کا مضبوط ترین ملک تھا، دنیا کے ایک حصے کی قیادت اس کے پاس تھی لیکن آج وہ مضبوط و مستحکم نظام والا طاقتور ترین ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے، سمٹ چکا ہے۔ دنیاکے کئی ممالک اس کے نظریے اور نظام کو قابل رشک اور قابل تقلید سمجھ کر اپنانے کی کوشش میں تھے۔ لیکن اب اس کی حیثیت وہ نہیں رہی، معلوم ہوتا ہے دنیا کے ملکوں کے نظام حکومت میں حالات کے مطابق مختلف اوقات اور اَدوار میں تبدیلی ہی کی وجہ سے اسلام نے تفصیلی، جزوی اور فروعی اصولوں کو معین نہیں کیا۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ نظام حکومت کے بارے میں اسلام کی کوئی واضح تعلیم نہیں ہے اور اس معاملے میں اسلام نے کوئی اصول نہیں بتائے۔ اس مسئلے کی وضاحت سید سلیمان ندوی اس طرح کرتے ہیں : ’’ایک ہیں قانون کے اُصول اور کلیات اور دوسرے ہیں اس کے فروع اور جزئیات۔ دنیا کے ہر قانون کے اُصول و کلیات خواہ وہ عقلی و تجربی ہوں ، ہمیشہ یکساں رہتے ہیں ۔ ان میں تغیر و تبدل