کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 54
اٹھاتے ہوئے حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
’’اے لوگو! میں بھی تمہارے جیسا ایک مسلمان ہوں … میں صرف پیرو ہوں ، ہادی نہیں ہوں ، اگر میں راہِ راست پر گامزن رہو ں تو میری اتباع کرنا اور اگر بھٹک جاؤں تو مجھے سیدھا کرنا… اگر میں قوتِ غضبیہ سے کام لوں تو مجھ سے علیحدہ ہوجانا، اس وقت میراتم پر کوئی حق نہیں رہے گا‘‘[1]
سیرتِ ابن ہشام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے خطبے میں فرمایا:
’’اس وقت تک میری اطاعت کرو جب تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ‘‘[2]
کتاب الاموال میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خطبے کے الفاظ اس طرح نقل کئے گئے ہیں :
’’اے لوگو! میرا مقام یہ نہیں ہے کہ میں دین میں نئے نئے طریقے اپنی طرف سے وضع کرتا رہوں بلکہ میں تو دین کا اِتباع کرنے والا ہوں اور احکامِ خداوندی کا پابند ہوں‘‘[3]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جملے ، جو مختلف حوالوں سے نقل کئے گئے، ا س بات کی وضاحت کے لئے کافی معلوم ہوتے ہیں کہ اگرچہ حاکم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور قرآن و حدیث میں مختلف مواقع پر اس کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن ایسا اجتماعی زندگی میں نظم کے تقاضے کے تحت کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے حکمران حاکمیت کے اختیارات میں شریک نہیں ہوتا۔ اس کے حکم کی اطاعت اس کی ذاتی اہمیت کی وجہ سے نہیں کی جاتی بلکہ صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حاکمیت قائم کرنے کے لئے اس کے احکامات کا اجراء/ نفاذ کرتا ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اپنے احکامات دیتا ہے تو اس کو ’’سیدھا کرنا‘‘ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ) ضروری ہے۔ اسی اصول اور ضابطے ہی کی بنا پر اسلامی ریاست کے حکمران کواپنے ہر حکم اور ہر فعل کے بارے میں یہ وضاحت کرنا ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں :
’’من جملہ ان کے یہ کہ مظلوموں کی دادرسی کے سلسلے میں خلیفہ ٔ وقت جو کچھ بھی عمل لائے، اس میں وہ اپنے آپ کو پبلک کے سامنے حق بجانب ثابت کرسکے۔ اس کے پاس شرع کی تصریحات میں سے کوئی ایسی واضح دلیل ہو جس کے ذریعے وہ خاص و عام کو منوا سکے کہ ظلم کی پاداش وغیرہ میں اس نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ اس طرح مقدمات اور جھگڑوں کے بارے میں بھی اس کے فیصلے شرعی حجت اور سند پر مبنی ہوں ۔ کسی کو یہ حرف گیری کرنے کا موقع نہ ملے کہ اس نے استبدادی فیصلہ کیا اور اپنی رائے پر عمل کیا‘‘[4]
[1] ابوجعفر جریرطبری، تاریخ طبری (اردو ترجمہ) جلد دوم، ص۴۱، ۴۲، نفیس اکیڈیمی کراچی
[2] ابن ہشام، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد دوم (اردو ترجمہ)، ص ۸۱۲، شیخ غلام علی اینڈ سنز، کراچی
[3] ابوعبیدالقاسم بن سلام، کتاب الاموال (اردو ترجمہ) ص ۳، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۸۶ء
[4] شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البالغہ، جلد دوم، ص ۶۰۲، قومی کتب خانہ، لاہور، دسمبر ۱۹۸۳ء