کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 53
اسی لئے آیت میں حکومت کی آیت کی تاکید کی گئی ہے اوریہ تاکید ایک نہیں ، کئی احادیث میں موجود ہے۔ حاکم کی اطاعت کے اس حکم اور پھر احادیث میں اس کی ترغیب و تاکید سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ حکمران کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ شبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حکمران کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ کا صحیح مفہوم و مطلب ذہن میں نہ رکھا جائے۔ چنانچہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں قرآنِ کریم کی اسی آیت ﴿اَطِیْعُوا اﷲ وأطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ…﴾ کی شرح میں تحریر کرتے ہیں : ’’حاکم کی اطاعت صرف اسی وقت واجب ہے جب اس کا حکم شرع کے خلاف نہ ہو۔ آیت کی رفتار سے یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلے اللہ نے انصاف کرنے کا حکم دیا اس کے بعد حاکموں کی اطاعت کا امر کیا۔ ا س سے معلوم ہوا کہ جب تک حکام عدل پر قائم ہوں ، ان کی اطاعت واجب ہے۔ اس سے آگے خود صراحت فرما دی : ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیٔ فَرُدُّوْہٗ اِلیٰ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾ یعنی ’’اگر کسی مسئلے میں تمہارا آپس میں اختلاف ہوجائے تو (صحیح فیصلے کے لئے) اللہ اور اس کے رسول کے (اَحکام کی ) طرف رجوع کرو‘‘[1] صحیح مسلم کے شارع علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ’’لازم ہے تم پر سننا اور اطاعت کرنا حاکم کی بات کا‘‘ نقل کرنے کے بعد تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’یہ اطاعت اسی صورت میں ہے جب حاکم کا حکم خلافِ شرع نہ ہو اور اگر شرع کے خلاف ہو تو اطاعت نہ کرے‘‘[2] ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے کی وضاحت ایک اور حدیث کے ذریعہ یوں کرتے ہیں جس میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے علاوہ جو بھی مخلوق (بشمول حاکم) ہے، اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقابلے میں جائز ہی نہیں ہے ، وہ تحریر کرتے ہیں : ’’حدیث ِنبوی میں وارد ہے ’’لا طاعۃ َلمخلوق في معصیۃ الخالق‘‘ یعنی جس کام میں خالق کی معصیت و نافرمانی ہوتی ہو، اس میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ‘‘[3] اسلامی ریاست میں لوگ حکمران اور خلیفہ کی اطاعت اس کے اس عہد ہی کی وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات اور طریقوں کو جاری کرے گا۔ اگر وہ اس عہد پر قائم نہیں رہتا تو اس کو اطاعت کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ۔ حکمرانوں کے اس عہد کا ذکر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جب آپ کے خلیفہ کے فیصلے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور بالآخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیر و حاکم اور خلیفہ بنائے جانے پر اتفاق ہوا تو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے تمام مسلمانوں کے سامنے اپنے عہدے کا حلف
[1] قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی، تفسیر مظہری، حصہ سوم، ص ۱۵۰، ایم سعید اینڈ کمپنی، کراچی، جنوری ۱۹۸۰؁ء [2] صحیح مسلم شریف مع شرح نووی، جلد پنجم، ص۱۲۵، مکتبہ شعیب، برنس روڈ، کراچی [3] ابن تیمیہ، سیاسۂ شرعیۃ (اردو) ص ۸۳، کلام کمپنی، کراچی