کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 52
اور اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانونِ خداوندی کے خلاف ہو‘‘[1]
علیم و خبیر اللہ تعالیٰ کو خود بھی معلوم تھا کہ ان کا بھیجا ہوا پیغمبر بھلائیوں ہی کو پھیلائے گا، نیکیوں کا حکم دے گا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے والا ہو بھی کون سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا میں تشریف ہی اس لئے لائے تھے کہ اسلام کے بھائیوں اور نیکیوں والے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں ، دنیا سے برائیوں اور خرابیوں کا خاتمہ کریں لیکن اس سب کے باوجود اس قید اور شرط کا لگانا اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر کرنا درحقیقت اُمت کو یہ تعلیم دینے ہی کے لئے تھا کہ وہ حاکم اعلیٰ اور مقتدرِ اعلیٰ صرف ایک اللہ ہی کو یقین کریں اور بعد میں کسی بھی وقت کسی کے لئے بھی یہ گنجائش نکالنے کا موقعہ نہ ہو کہ حکم دینے کا اختیار کسی اور طاقت و قوت کے پاس بھی ہوسکتاہے۔ مفتی محمد شفیع تحریر کرتے ہیں :
’’﴿وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ یعنی ’’وہ کسی نیک کام میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں گے‘‘ یہاں ’معروف‘ یعنی نیک کام کی قید لگانا جب کہ یہ یقینی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم معروف اور نیکی کے سوا ہو ہی نہیں سکتا یا تو اس لئے ہے کہ عام مسلمان پوری طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں یہاں تک کہ رسول کی اطاعت بھی اس شرط کے ساتھ مشروط( کردی گئی‘‘[2]
حاکم کی مشروط اطاعت
اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ کے سلسلے میں ایک معاملہ حکمران کی اطاعت کا ہے۔ قرآنِ حکیم کی سورۃ النساء کی آیت ۵۹ میں اللہ تعالیٰ نے حکمران کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی، اطاعت کرو اس کے رسول کی اور اس کی جو تم میں سے صاحب ِامر (حاکم) ہو۔‘‘ آیت میں صاحب ِامر (حاکم /حکمران) کی اطاعت کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے حکم کے ساتھ ہی حاکم کی اطاعت کا حکم ذکر کیا گیا ہے جس سے حکومت اور حکمران کی اطاعت کی بہت زیادہ تاکید معلوم ہوتی ہے۔اس تاکید کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، اس لئے کہ اجتماعی زندگی انسان کا فطری تقاضا ہے اور اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط اور نتیجۃً فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی ، حکو مت کی تشکیل و تنظیم اور اس کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے، حکومت کا ہونا، قانون بنانا اور مؤثر طریقہ سے اس کا نفاذ اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
[1] سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۴۶۶، ادارہ ترجمان القرآن لاہور،اپریل ۱۹۸۲ء
[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زیادہ بہتر تعبیر یہ ہے کہ آپ کی اطاعت مشروط نہ تھی کیونکہ ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ ﴾اور﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ،إِنْ ھُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحَیٰ﴾ آپ کی اطاعت کو غیرمشروط بیان کرتے ہیں اور آپ کے حوالہ سے قرآن میں فِیْ مَعْرُوْفٍ کی قید احترازی نہیں ، برسبیل تذکرہ ہے جیسا کہ ہم کچھ چیزوں کوبیان کرنے کے بعد ’’وغیرہ ،وغیرہ‘‘ کے الفاظ سے اسے عمومی حیثیت دے دیتے ہیں ۔
[3] مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، جلد ہشتم، ص ۴۱۸، ادارۃ المعارف ، کراچی، مارچ ۱۹۸۴ء