کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 51
سے پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا، ایسا کیوں کیا، وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے، سب کا مالک ہے، اسے اختیار ہے جو چاہے سوال کرے‘‘[1] سورۃ آلِ عمران کی آیت ۱۰۸، ۱۰۹ کی تفسیر کے تحت ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے، وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو آپ خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے… زمین وآسمان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں ،۱ور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے، متصرف و بااختیار حاکم، دنیا و آخرت کا وہی ہے‘‘[2] سیاسی مفکرین اقتدارِ اعلیٰ کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں کہ ریاست کی یہ برتر قوت و طاقت مطلق العنان اور لامحدود اختیارات کی مالک ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس پر کسی بھی طرح کوئی قانونی پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ ریاست میں سب اس کے حکم اور قانون کے تحت اور پابند ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کے تحت اور پابند نہیں ہوتی۔ یہ طاقت نہ عارضی ہوتی ہے اور نہ ہی مستعار اور عطیہ کی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک ہی ہوتی ہے، اس قوت میں کوئی اور شریک نہیں ہوتا۔ یہ سب سے اعلیٰ اور برتر (Supreme)اختیار کا نام ہے۔Encyclopaedia Americana میں اقتدارِاعلیٰ کے لئے "Absolute and ultimate Authority in the state" کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ لیکن اسلامی نظریہ کے مطابق یہ مطلق، لامحدود اور آخری اختیار اس کائنات میں کسی کو بھی حاصل نہیں ۔ کوئی انسان یا انسانی ادارہ ایسے اختیارات کا حامل نہیں ۔ ان اختیارات کا مالک صرف اور صرف کائنات کا خالق و قادر اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن و حدیث میں حاکم اعلیٰ، اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔یہ حکم ایک دو جگہ نہیں بلکہ بہت سے مقامات پر دیا گیا ہے لیکن قرآنِ کریم کی ایک آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے حکم کے ساتھ بھلائی کے کاموں کی قید لگائی گئی ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کی اطاعت بھلائی کے کاموں میں کی جائے گی اس پر علماء نے یہ بحث پیدا کی ہے کہ پیغمبر کے بارے میں تویقین کامل ہوتا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم ہی دیں گے تو پھر بھلائی کی قید کیوں لگائی گئی۔ چنانچہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ الممتحنہ کی آیت ۱۲ ﴿وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ ’’اور بھلائی کے کام میں وہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے‘‘ کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پربھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کی کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں ۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانونِ خداوندی کی حدود سے باہر جاکر نہیں کی جاسکتی کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت، معروف کے ساتھ مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اِطاعت کا حق پہنچے
[1] حافظ ابوالفداء، ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، جلد سوم، ص ۸۔۹، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی [2] حافظ ابوالفداء، ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، جلد اول، ص ۱۲، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی