کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 50
خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ پہلی اِسلامی ریاست (کے دستور میں موجود ہے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد پہلے ہی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ایک ہجری میں ایک معاہدہ تحریری دستاویز کی صورت میں کیا جس کو دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کے پہلے دستور کی حیثیت حاصل ہے۔ ابن ہشام کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس دستور کو نقل کیا گیا ہے۔ابتدائی جملے یہ ہیں :
’’شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ یہ نوشتہ یا دستاویز ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم ( ہیں ، قریش اور اہل یثرب میں سے ایمان داروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو ان کے تابع ہیں …‘‘
…اور پھر اس پہلی اسلامی ریاست کے دستور کی شق نمبر ۲۴ میں ہے: ’’اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیاجائے‘‘[1]
یہ دستور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے اور بھیجے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت ِنبی اور بحیثیت پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ کے امت کو عطا کیا ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع‘‘ اس دستور کی بنیاد اور روح ہے۔ برطانوی نظامِ حکومت کی روح ’’پارلیمنٹ کا اقتدارِ اعلیٰ‘‘ کے اصول اور نظریہ کی اسلامی ریاست میں معمولی سی بھی گنجائش نہیں ہے۔ پارلیمنٹ ایک انسانی ادارہ ہے۔ اسلام کے نظریہ کے مطابق اس کائنات کی اشرف ترین مخلوق انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ زمین و آسمان اور ان میں موجود سورج ، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت، پھل اور پھول سب کچھ اس ذات نے پیدا کئے ہیں اور انہی اشیاء کو انسان مختلف طریقوں سے استعمال کرکے اپنی زندگی کے نظام کو چلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ساری کائنات کا خالق و مالک، ا س کے نظام کو چلانے والا اور اس پر ’’قدرتِ کاملہ‘‘ رکھنے والا ہے۔ ایسی صورت میں حاکمیت کا حق بھی اسی ذات کو حاصل ہے ۔ حافظ ابن کثیر سورۃ النساء کی آیت ۲۱ تا ۲۳ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
’’اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علیٰ الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں ، سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں ، نہ اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرسکے، نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے، اس کی کبریائی اور عظمت وجلال اور حکومت، علم وحکمت، لطف اور رحمت بے پایاں ہے، کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں ، سب پست اور عاجز ہیں ، کوئی نہیں جسے چون و چرا کا اختیار ہو، جو اس
[1] راجح تحقیق یہ ہے کہ اسلام کا اجتماعی نظام جو مکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے درمیان موجود تھا، مدینہ کی اجتماعیت اسی کا ایک ارتقا تھا کیونکہ مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے یکسر مختلف سیاسی ریاست کی تاسیس مستشرق منٹگمری واٹ کی تحقیق ہے لیکن مسلمانوں کے ہاں مسلمہ امر نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام کا نظریۂ حاکمیت سیاسیات کے نظریۂ اقتدارِ اعلیٰ سے مختلف ہے کیونکہ اسلام میں اقتدارِ اعلیٰ کوئی اختلافی شے نہیں جیساکہ قرآن میں ہے وَلَہٗ أسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوَاتِ والأرض لہٰذا اسلام میں حاکمیت کی بحث صرف اِطاعت کے تصور کے تحت آسکتی ہے ، اقتدارِ اعلی کے تحت نہیں۔ (محدث)
[2] اس دستاویز کے میثاق نہ ہونے کی دلیل اس میں آپ کی نبوت کے اقرار کا ذکر بھی کیونکہ غیر مسلم (یہودی وغیرہ) اس کو تسلیم کرلینے سے مسلمان بن جاتے ہیںجو واقعتا درست نہیںـ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسی کسی کامل دستاویز کو ثابت شدہ نہیں مانتے (محدث)
[3] ابن ہشام، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد اول (اردو ترجمہ) صفحہ ۵۵۴،۵۵۸، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور