کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 5
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) دوسری شادی کیلئے اجازت ، طلاق کے الفاظ.... 1۔دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت؟ 2۔مسئلہ رضاعت؟ 3۔طلاق کے بجائے کسی دوسرے لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے؟ سوال۔میری شادی ام کلثوم سے 1971ء میں ہوئی جبکہ حق مہر صرف بتیس روپے مقرر ہوا۔گھریلو اختلافات کی وجہ سے میں نے 1986ء میں ایک طلاق دے دی تھی۔پھر کوئی طلاق نہ دی۔اس کے بطن سے ایک بچی بھی ہے۔چند سال بعد 1990ء میں ،میں نے دوسری شادی کرلی۔تقریباً چھ سال بعد 1992ء میں ام کلثوم سے میں نے دوبارہ نکاح کرلیا۔آیا یہ شرعاً جائز تھا،کیا اس میں حلالہ کی ضرورت تھی یا نہیں ؟(محمد گلزار،لاہور) جواب۔اس شکل میں طلاق رجعی کی صورت میں علیحدگی ہوئی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ عدت کے اندرشوہر رجوع کرسکتا ہے۔اور عدت گزرنے کی صورت میں د وبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے۔چنانچہ بالفعل دوبارہ ام کلثوم سے نکاح ہوگیا ہے جو درست فعل ہے۔اس امر کی واضح دلیل حضرت معقل بن یسار کی ہمشیرہ کا قصہ ہے۔اس کے شوہر نے طلاق دے کر دوبارہ عدت کے بعد نکاح کرنا چاہا تو معقل درمیان میں رکاوٹ بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی﴿فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ﴾ شرعی امر کی بناپر وہ دوبارہ نکاح کرنے کے لیے تیار ہوگئے فرمایا:الآن أفعل يا رسول اللّٰه ، قال: فزوجها إياه. (صحیح بخاری باب من قال لا نکاح الا بولی) سوال۔1961ء میں مسلم عائلی قوانین دفعہ 6(5) کے تحت بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا خلاف قانون ہے۔مسلم عائلی قوانین میں یہ شق درج ہے۔کہ کوئی بھی دفعہ جو اسلامی قوانین کے خلاف ہوگی،اسے منسوخ سمجھا جائے گا۔کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا اسلامی قانون کے مطابق ہے یا شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمایا جائے کہ کیا پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے والے مرد کو پاکستان کی کسی عدالت کا سزا دینا خلاف شرع ہے؟(محمد گلزار،لاہور) جواب:دوسری عورت سے نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کا اسلامی شریعت میں تصور پایا نہیں جاتا۔عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بیک وقت مرد اپنے نکاح میں چار تک بیویاں رکھ سکتا ہے۔یہ حق مسلمان کو شریعت کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔جس میں وہ بیوی وغیرہ کی اجازت کا محتاج نہیں ۔اسلامی تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کبھی کسی مرد نے دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت طلب کی ہو جبکہ مسلمانوں میں شروع سے ہی کثرت ازواج کا سلسلہ قائم ودائم ہے،بالخصوص عرب علاقوں میں جہاں شریعت کو فوقیت حاصل ہے۔بالفرض پہلی بیوی کی اجازت سے نکاح کرکے مرد اپنی پہلی بیوی کو ہی کسی وجہ سے طلاق دے دیتا ہے۔ تو پہلی بیوی کی اجازت کی حیثیت کیا رہی۔واضح ہو شریعت کے قوانین تار عنکبوت کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں جن کو دنیاوی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کے سامنے اپنے آپ کو جھکانا ہی سلامتی کی راہ ہے۔ جب دوسرے نکاح کے لیے اسلام میں اجازت کاتصور پایا نہیں جاتا تو اس کو مستوجب سزا قرار دینا