کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 49
کہ ریاست کے تمام لوگ اور ان کے قائم کردہ ادارے اور تمام معاملات اسی اقتدارِ اعلیٰ کی قوت و طاقت کے تحت چلتے ہیں ۔ ظاہری وجودو ہیئت کے لحاظ سے ایک اسلامی ریاست کے لئے بھی انہی عناصر کا ہونا ضروری ہے جن کا موجود ہونا دیگر ریاستوں کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جناب امین احسن اصلاحی اسی فرق کی نشاندہی اس طرح کرتے ہیں : ’’ایک عام ریاست اور اسلامی ریاست میں بھی جہاں تک ان کے ظاہری ڈھانچے اور مادّی اجزائے ترکیبی کا تعلق ہے، کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک عام ریاست جس طرح اپنے وجود پذیر ہونے کے لئے اس امر کی محتاج ہے کہ اس کو ایک انسانی معاشرہ حاصل ہو، اس کے قبضے میں ایک مخصوص علاقہ ہو، وہ داخلی طور پر بااِقتدار اور بیرونی حیثیت سے خود مختار ہو، اس کے پاس ایک سیاسی ادارہ (گورنمنٹ) ہو جو اس کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے، اسی طرح اسلامی ریاست یا خلافت بھی اپنے وجود پذیر ہونے کے لئے ان ساری چیزوں کی محتاج ہے۔ اس پہلو سے غور کیجئے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن جہاں تک دونوں کے اصول اور مقاصد کا تعلق ہے ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے‘‘[1] اس اہم ترین فرق کا بہت زیادہ واضح اظہار برطانیہ کے نظامِ حکومت اور ایک اسلامی ریاست کے نظامِ حکومت سے ہوتا ہے۔ برطانیہ کا سیاسی نظام اس وقت قدیم ترین خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا نظامِ حکومت مستحکم انداز سے چل رہا ہے۔ اس ملک میں عوام کی منتخب شدہ پارلیمنٹ (پارلیمنٹ کا اہم ایوان دارُالعوام ہے اور وہ منتخب شدہ ہے اور یہی ایوان میں درحقیقت اصل اختیارات کا مالک ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ ہے، اسی لئے مشہور ہے کہ پارلیمنٹ کے وجود میں آنے اور توڑے جانے کا مطلب دارالعوام ہی ہے) کو ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں ۔ وہ ہر طرح کا قانون بنا سکتی ہے۔ قانون سازی کے سلسلے میں اسے کلی اختیارات اس طرح حاصل ہیں کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کو کوئی اور ادارہ یا عدالت مسترد یا نامنظور نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ ملک کے بنیادی اور اہم ترین قانون /دستور میں وہ ہر قسم کی ترمیم کرنے کی مجاز ہے اور یہ ترمیم وہ آسانی سے سادہ اکثریت سے کرسکتی ہے۔ ڈائسے(A.V. Dicey) نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہر قسم کے اختیارات تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: "It can in short do everything that is not naturally impossible." ’’مختصر یہ کہ وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو کہ قدرتی طور پر ناممکن نہیں ہے‘‘ اور پھر ڈائسے پارلیمنٹ کے کلی اختیارات واضح کرنے کے لئے ایک مختصر لفظ "Omnipotence of Parliament" استعمال کرتا ہے یعنی ’’پارلیمنٹ کی قدرتِ کاملہ‘‘[2] اسلام کا نظریۂ حاکمیت برطانوی پارلیمنٹ کے اقتدارِ اعلیٰ کے نظریہ کے مقابلے میں اسلام کا نظریہ کیاہے؟ اس کا جواب
[1] امین احسن اصلاحی، اسلامی ریاست، ص ۱۵، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، جولائی ۱۹۷۷ء [2] Dicey, A.V.:Law of the Constitution. P.40, Oxford 1914, 8th edition.