کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 47
امریکہ کے آئین سے بھی قدیم ایک اور آئین ہے لیکن وہ غیر تحریری کہلاتا ہے۔ برطانیہ کا آئین کسی دستور ساز کنونشن یا دستور ساز پارلیمنٹ نے باقاعدہ غورو خوض کے بعد مرتب نہیں کیا بلکہ اس کا بیشتر اور اہم حصہ سیاسی رواجات پر مبنی ہے، اس لئے ڈائسے(Dicey) نے کہا ہے:
’’اس کی تخلیق کے لئے کسی خاص دن اور تاریخ کا تعین نہیں کیا جاسکتا، کچھ لوگوں پر مشتمل ادارہ اس کا خالق ہونے کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ ایسی کسی دستاویز کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اس میں اس آئین کی دفعات موجود ہیں ‘‘[1]
امریکہ کے تحریری دستور سے پہلے اور برطانیہ کے غیر تحریری دستور سے بھی بہت پہلے دنیا کی سلطنتوں کے دساتیر بنائے جاتے رہے ہیں لیکن مسلم مفکرین کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ان دساتیر سے ایک ہزار سال سے زیادہ پہلے جو آئین مرتب ہوا اور جو درحقیقت دنیا کا پہلا تحریری دستور کہلانے کا مستحق ہے، وہ مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کا ہے۔ تاریخ وآثار کے ایک ممتاز محقق ڈاکٹر حمید اللہ (نے تحریر کیا ہے :
’’غرض عام قواعد و قوانین ملک کم و بیش تحریری صورت میں ہر جگہ ملتے ہیں لیکن دستورِ مملکت کو عام قوانین سے علیحدہ تحریر ی صورت میں لایا جانا اس کی نظیر باوجود تلاش کے مجھے عہد نبوی سے پہلے نہیں مل سکی۔ بے شبہ منوسمرتی (۳۰۰ ق م) اور اس کے ہم عصر ارسطو (۳۸۴ تا ۳۲۲ ق م) کی کتابوں میں سیاسیات پر مستقل تالیفیں بھی ملتی ہیں ۔ ارسطو نے تو اپنی ہم عصر شہری مملکتوں میں سے بشمول ہندوستان (۱۵۸) کے دستور بھی لکھے تھے… لیکن یہ سب یا تو درسی یا مشاورتی کتابوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور مسلمانوں کے ہاں نصیحۃ الملوک قسم کی تالیفوں کے مشابہ ہیں یا کسی قسم کے دستور کا تاریخی تذکرہ ہیں ۔ کسی مقتدرِ اعلیٰ کی طرف سے نافذ کردہ مستند دستورِ مملکت نہیں ‘‘[2]
اقتدار اعلیٰ
کسی ریاست کے نظام حکومت اور دستور کی نوعیت سمجھنے کے لئے اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ اور اصول
[1] Dicey, A.V: Law of the constitution. P.3, Oxford 1914, 8th Edition.
[2] ڈاکٹر حمید اللہ کا تاریخ وآثار میں واقعی ایک نمایاں مقام ہے لیکن ضروری نہیں کہ ڈاکٹر موصوف شریعت وفقہ کے کوئی بڑے محقق ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات لکھتے ہوئے ان کے سامنے اجتماعیات کے نامور محقق امام ابو عبید قاسم بن سلام کی کتاب غریب الحدیث کی یہ تحقیق سامنے نہ تھی کہ اس طرح ۵۳ دفعات پر مشتمل کسی دستاویز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی البدایۃ والنہایۃ میں انہی کے حوالہ سے ایسی کسی دستاویز کے ثبوت سے انکار کیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی باہمی مؤاخات کے علاوہ مختلف مواقع پر جو یہودی قبا ئل سے صلح کے معاہدے کئے، ان منتشر دفعات کو جمع کر کے اسے ایک دستاویزکی شکل دی گئی ہے جسے میثاقِ مدینہ مشہور کر دیا گیا ہے ۔
[3] ڈاکٹر حمید اللہ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ص ۷۶، ۷۷، اردو اکیڈمی سندھ کراچی، ستمبر ۱۹۸۷ء