کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 43
آیات‘‘ مکمل کرچکا تھا یاغالباً اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آچکا تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قلمی میدان کے عظیم شہسوار تھے، حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں ان سے یہ سوال! ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟‘‘ ا س بات کی طرف اشارہ تھا کہ مولانا علی میاں نے شاتم رسول ملعون رشدی کی ہرزہ سرائی اور زبان درازی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کیا انتظام کیا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مولانا علی میاں سے یہ تقاضا ان کے ادیب ہونے کی وجہ سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی ملک کے حکمران نہیں تھے کہ جن سے سعودی عرب یا عالم اسلام کی حفاظت کا تقاضا کیا جاتا۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے جناب رسالت ِ مآب کا یہ سوال حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کوکافروں کے ہجویہ اشعار کے مقابلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کے حکم سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی صاحب جیسے صاحب ِ قلم، محب ِ رسول سے یہ بجا طور پر توقع تھی کہ وہ ملعون رشدی کی خرافات کا جواب لکھیں ۔ مزید برآں مذکورہ سوال کے الفاظ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے؟‘‘ سے بھی خاصی مناسبت رکھتے ہیں او ریہ سوال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کسی شاتم رسول سے تحفظ دلانے کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرماتے تھے‘‘ (واللہ اعلم بالصواب) راقم الحروف کا مولانا ابوالحسن علی ندوی کے خواب کی تعبیر کے متعلق میلانِ غالب یہی ہی۔ اگر اس خواب کی یہی تعبیر درست ہے تو راقم الحروف کو یقین کامل ہے کہ آج کے دور میں حب ِ رسول کا عظیم ترین تقاضا یہ ہے کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سرور ِ کونین، خاتم الانبیاء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ مقدسہ کے خلاف شیطانی ذرّیت ملعون رشدی اور دیگر شاتمانِ رسول کی مکروہ زبان درازیوں کا مقدور بھر جواب دیا جائے۔ اور سیرت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عالم کفر میں بھرپور اشاعت کی جائے تاکہ اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جانے والی یہ سازشیں یہود و نصاریٰ کی بدحواسی کی غماز ہیں ۔ اسلام یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اسلام کی اشاعت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ متعصّب مسیحی و صہیونی مصنّفین کا جناب رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ برکات کے بارے میں غلط تاثر قائم کرنا بھی ہے۔ جونہی یہ تاثر ختم ہوگیا تو پھر یورپ اور امریکہ اسلام کی جھولی میں پکے پھل کی طرح آگریں گے اور قیامت سے پہلے پوری دنیا پر اسلام کے غلبہ کی پیشین گوئی عملی صورت بن کر سامنے آئے گی۔ اگرہم حقوق الرسول کو اُمّ الحقوق مانتے ہیں تو پھر اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ آج سسکتی ہوئی انسانیت کو جس آفاقی منشور کی ضرورت ہے، اس کا سرچشمہ صرف ایک ہے اور وہ ہے سیرت ِ سرور ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم …یعنی اُمّ الحقوق کی پاسداری!!