کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 42
جاتے ہوئے نصف دن کے لئے کراچی میں قیام کریں گے۔ وہ ایک انتہائی پیغام لے کر آرہے ہیں لہٰذا صدر راولپنڈی سے کراچی پہنچ کر ان سے مل لیں … جنرل ضیاء الحق نے فورا ً ہی آمادگی ظاہر کی۔ حجاز سے اے کے بروہی بھی ان کے ساتھ آئے۔
مدینہ منورہ میں ا ے کے بروہی نے مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کو یکایک اس حال میں دیکھا کہ اضطراب ان کے پورے پیکر سے پھوٹ رہا تھا… ابوالحسن علی ندوی صاحب ایسے لوگ اپنے اضطراب کا راز بیان نہیں کیا کرتے لیکن اے کے بروہی غالباً اسی لئے مدینہ منورہ بلائے گئے تھے کہ پیغام سنیں او رپہنچا دیں ۔ ابوالحسن صاحب جنہیں محبت سے علی میاں کہا جاتا تھا، نے خواب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی اور عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خواب میں یہ پوچھا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ جیسا کہ بعد میں علی میاں نے بیان کیا، وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھے۔ لیکن کچھ دیر میں دوبارہ سوئے تو پھر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار سوال کیا: تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں اُمتی اضطراب، حیرت، رنج اور تعمیل کی آرزو کے ساتھ بہت دیر تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ نور الدین زنگی کا سا معاملہ نہ تھا جب دو بدبخت یہودیوں نے مرقد مبارک میں نقب لگانے کی جسارت کی تھی۔ اب اس اشارے کا مفہوم کچھ اور تھا۔ آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس معاملے کو عالم اسلام کی سب سے بڑی سپاہ کے سردار جنرل محمد ضیاء الحق کے سپرد کردیا جائے۔ ان کے نزدیک اس پیغام کا مطلب یہ تھاکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم خطرات سے دوچار ہے… ایک سادہ، سچے اور کھرے آدمی نے، سارا عرب جس کے حسن بیان کا مداح تھا، صاف اور آسان الفاظ میں اپنا خواب دہرایا۔ خواب بیان کرتے ہوئے ۷۳ سالہ عالم دین رو دیا۔ گداز اور درد کی شدت سے شاید اس کا پورا پیکر کانپ رہا ہوگا۔ بروہی روئے اور محمد ضیاء الحق بھی روئے کہ دونوں گریہ کرنے والے آدمی تھے۔ لیکن جنرل کے لئے یہ فیصلے کی ساعت تھی وہ زیادہ دیر رو نہ سکتا تھا۔ پانچ لاکھ فوج اور ایٹمی پاکستانی کے سربراہ نے اپنے آنسو پونچھے، پھر انکسار اور عاجزی لیکن محکم لہجے میں انہوں نے کہا کہ اگر آنجناب کو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو تو نہایت ادب سے عرض گزاریں کہ پاکستانی فوج کا آخری سپاہی تک کٹ مرے گا لیکن مدینہ ٔ منورہ اور حرمین شریفین پر آنچ نہ آنے دے گا‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۳ /جنوری ۲۰۰۰ء)
مولانا علی میاں اور جناب اے کے بروہی نے رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارکہ کی جو تعبیر نکالی، ممکن ہے وہ درست ہو، لیکن راقم الحرو ف کا ذہن ایک دوسری تعبیر کا میلان رکھتا ہے۔ جناب ہارون الرشید کے بقول جب مولانا علی میاں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو اس وقت ان کی عمر ۷۳ سال تھی۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جب ان کا انتقال ہوا تو ان کا عمر ۸۴ برس کی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خواب گیارہ سال قبل یعنی ۱۹۸۸ء کے دوران دیکھا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں ملعون رشدی ’’شیطانی