کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 41
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کو نثار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ زیاد رضی اللہ عنہ رہ گئے۔ وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انہیں گرا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں میرے قریب کرو‘‘ پھر ان کی موت کا وقت آپہنچا اور ان کا رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک پر تھا‘‘
(۴) حضرت خنساء رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ ہیں ۔ ایک غزوہ میں انہیں چار بیٹوں کی شہادت کی خبر ملتی ہے مگر وہ دریافت کرتی ہیں : یہ بتاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں ؟
یہ تو محض چند واقعات ہیں ۔ سیرت و مغازی کی کتب ایسے واقعات سے مزین ہیں ، جنہیں پڑھ کر حرارت ِ ایمانی بھڑک اٹھتی ہے۔
ذرا آج غور فرمائیے، اکیسویں صدی کے آغاز پر امت ِ مسلمہ کی غیرت ِ ایمانی کی کیا صورت ہے۔ دشمنانِ اسلام کی گستاخیاں اور زبان درازیاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں ۔ جدید دور کی تمام تر روشن خیالیاں اہل یورپ کے دلوں سیپیغمبر ِاسلام کے خلاف صلیبی بغض کی سیاہیوں کو دھو نہیں سکیں ۔ تکریم آدم کے ڈھنڈروچی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی آنکھوں کے نو ُر اور دلوں کے سرور پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی اور سب و شتم کے مرتکب ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں ۔ کہیں تسلیمہ نسرین جیسی گستاخ عورت کو انسانی حقوق کے نام پر پناہ دی جاتی ہے تو کہیں کسی اور شاتم رسول کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے۔ کہیں سلامت مسیح، رحمت مسیح جیسے گستاخانِ رسول کو یورپ کی خوشنودی کے حصول کیلئے عدالتوں سے باعزت بری کروا کر فرار کرایا جاتا ہے۔
آج جناب رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں نہیں ہیں کہ ہمیں آواز دیں ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے‘‘ مگر کیا ہماری روحیں بھی مردہ ہوچکی ہیں جو روحِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کو محسوس نہیں کرسکتیں ؟ نبی مکرم کے جن پروانوں کی روحیں ایمان کی تجلی سے اب بھی روشن ہیں وہ جناب رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن رہے ہیں ۔
مفکر ِاسلام سید ابوالحسن علی ندوی کا انتقال ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو نئی صدی کے آغاز سے چند منٹ قبل ہوا۔ ان کے حوالے سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ (۳ جنوری ۲۰۰۰ء) میں معروف صحافی جناب ہارون الرشید نے کالم لکھا۔ یہ کالم سید ابوالحسن علی ندوی کی خواب میں جناب رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تفصیل پرمبنی ہے۔ اس خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولانا ندوی صاحب سے دریافت کیا تھاکہ ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا؟‘‘ یہ واقعہ ہارون الرشید کو سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے جج ڈاکٹر محموداحمد غازی نے سنایا، انہیں اے کے بروہی مرحوم نے سنایا تھا۔ اس کالم کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’یہ آٹھویں عشرے کا ذکر ہے جب مدینہ منورہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے رفیق کار جناب اے کے بروہی نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب جدہ سے بھارت