کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 40
(۲) ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حاضر ہوں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گستاخ سے مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (ایضا ً)
اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں مذکور ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد کرب کی حالت میں پکار اٹھتے تھے: ’’کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی اور سچی محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اپنی ذات اور دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز مقدس ہستی کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر گستاخِ رسول کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کردی جاتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے آزمائش بھی تھی کہ وہ حب ِ رسول میں کتنے سچے ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے بارگاہ ِنبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پروانے ہر آزمائش میں سرخرو و کامیاب نکلے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا انگ انگ حب ِ رسول سے سرشار تھا!!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان نثاری ، وارفتگی او رمحبت کے مظہر واقعات سے تاریخ اسلام کے اوراق منور ہیں ۔ روئے زمین پر کسی نبی، کسی بادشاہ، کسی سپہ سالار کے ساتھیوں نے اپنے محبوب پر اپنی محبتوں کے نذرانے اس طرح پیش نہیں کئے۔ چند ایک واقعات ملاحظہ ہوں :
(۱) غزوۂ اُحد برپا ہے، وقتی طور پر مسلمان کفار کی یلغار کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے پسپا ہو رہیہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے نرغے میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محب صحابی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ ٔ مبارک کے سامنے اپنے سینے کو بطور ڈھال آگے کرتے ہیں تاکہ دشمن کے تیر آنے پر وہ نشانہ بنیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ تیروں کی بارش جاری ہے۔حشر کا معرکہ برپا ہے۔ سردار ِ انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کا جائزہ لینے کے لئے اپنے سر مبارک کو اٹھاتے ہیں تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! سر مبارک کو نہ اٹھائیے، ایسا نہ ہو کہ مشرکوں کا کوئی تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جائے۔ میری چھاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ ٔ مبارک کے لئے ڈھال ہے!‘‘
(۲) اسی معرکہ ٔ اُحد کے متعلق ابن اسحق روایت کرتے ہیں :
’’ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھال بنا دیا۔ نیزے ان کی پشت میں پیوست ہوتے رہے لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر برابر جھکے رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے نیزے ان کی پشت میں پیوست ہوتے گئے۔ انہوں نے نیزوں کی بارش کے باوجود حرکت نہ کی‘‘
(۳) ابن اسحق نے بیان کیا ہے کہ غزوہ ٔ اُحد میں جب مشرک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے لئے اپنی جان کون بیچتا ہے؟‘‘
’’زیاد بن السکن سمیت پانچ انصاری آگے بڑھے۔ وہ پانچوں انصاری ایک ایک کرکے