کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 39
مال اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں ‘‘
قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے لئے اللہ نے وعید فرمائی ہے جو اپنے عزیز و اقارب اور مال و تجارت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ِ ربانی ہے:
’’کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں ، تمہاری برادری، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے، تمہاری تجارت جس کے مندا پڑ جانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں پسند ہیں ، اللہ تعالیٰ، ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (آیت :۲۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامات اور تقاضے کیا ہیں ؟ اس بارے میں قاضی عیاض فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی نصرت و تائید کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ شریعت کا دفاع کرنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی جان و مال فدا کرنے کی غرض سے موجود ہونے کی تمنا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سے ہے‘‘ (شرح نووی)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے حصول اور اس سے محروم ہونے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حمایت و تائید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ شریعت کا دفاع، اور اس کے مخالفوں کی سرکوبی شامل ہے‘‘ (فتح الباری، ۵۹)
سعودی عرب کے معروف عالم دین محمد بن صالح عثیمین فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس کے خلاف کی گئی زبان درازیوں کا مؤثر دفاع کریں اور خلاف ِ اسلام پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیں ‘‘
جنابِ رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس و منزہ پر رذیل دشمنانِ اسلام کے سب و شتم ، اہانت و تنقیص اور گستاخیاں شدید گراں گزرتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مقدس لطیف ترین اور پاکیزہ ترین تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر دشمنوں کی معمولی سی لسانی غلاظتوں کو بھی برداشت نہ کرسکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں بے حد حساس واقع ہوئے تھے اور آخر حساس کیوں نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے تھے اور وہ جواباً کمینگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شرافت ،پاکیزگی اور روحانی لطافت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نفوسِ قدسیہ بازاری زبان کی متحمل نہیں ہوسکتیں ۔ بعض اوقات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی گستاخیوں پر تڑپ اٹھتے تھے:
(۱) ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبرا بھلا کہا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن کا بدلہ لے؟ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کام کے لئے تیار ہوں ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ا س کام کے لئے بھیجا۔ انہوں نے اس گستاخ کو قتل کردیا۔ (الشفاء، ۲:۹۵۱)