کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 37
کا عمل جاری نہ رہے۔ کوئی بھی نظام اپنی اساس کی بقا و استحکام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ مغرب کے نزدیک اگر انسانی حقوق کا سرچشمہ ’انسانی فطرت‘ ہے، تو حقوق کا یہ تصور باقی نہیں رہے گا اگر ’انسانی فطرت‘ کے مخصوص تصور کومحفوظ نہ کیا جائے۔ بالکل اسی طرح اسلام کی رو سے انسانی حقوق کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں ۔ اگر ہم انسانی حقوق کو مستقل انسانی قدروں کا درجہ دینے میں کس قدر سنجیدہ ہیں تو ہمیں اعتراف کر لینا چاہئے کہ اس نصب ُالعین کو ہم اس وقت حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ان کے اصل سرچشمہ کو محفوظ و مامون نہ کرلیں ۔ محسن انسانیت کی ناموس کے تحفظ کے بغیر انسانی حقوق کا نعرہ کھوکھلا ہے! محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے بغیر کسی انسانی روح کے حقوق کا تحفظ ناممکنات میں سے ہے۔ پوری انسانیت کی خیر وفلاح اس امر میں مضمر ہے کہ انسانی حقوق کے اس سرچشمہ کو ہر اعتبار سے صاف و شفاف رکھا جائے تاکہ یہ انسانی شعور اور انسانی فکر کی مثبت انداز میں آبیاری کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس کے تحفظ کے لئے ہر سخت سے سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس مقدس سرچشمہ کے تحفظ اور انسانیت کی مستقل فلاح کو یقینی بنانے کا احساس ہی تھا کہ اسلام نے بارگاہِ ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی کرنے والے بدبخت افراد کے لئے سزائے موت بیان کی ہے۔ توہین رسالت دراصل کسی ایک فرد کی شخصی توہین کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک انسانیت کش فتنہ ہے۔ یہ ایک شیطانی عمل ہے جس کا مقصد انسانیت کو فوزوفلاح اور خیرو صلاح کے عظیم ترین سرچشمہ سے محروم کرنا ہے۔قرآن مجید میں ان فتنہ پردازوں کو حرم کے اندر قتل کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے فتنہ برپا کرکے مسلمانوں کومسجد الحرام میں خدا کی عبادت سے محروم کردیا تھا۔ شتم رسول ایک عظیم فتنہ ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انسانوں کو انبیاء جیسے نفوسِ مقدسہ سے متنفر کردیاجائے۔ خالق کائنات کے متعلق نفرت کے جذبات کو فروغ دینے سے بڑھ کر آخر بڑا فتنہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ ایسے عظیم فتنہ کی سرکوبی کے لئے اگر سزائے موت کو جائز قرار دیا گیاہے تواس پر یہ ہنگامہ اور احتجاج کیوں برپا ہے؟ مغربی انسانی حقوق کے دانشوروں نے ’تصور ِ حقوق‘ کے متعلق فلسفیانہ موشگافیاں کی ہیں ۔ انہوں نے کسی چیز کے ’حق ہونے‘ Something Being Right اور کسی چیز کے حق رکھنے Something Having a Right کو مختلف اُمور قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں کسی بات کے ’حق ہونے‘ کا تعلق اخلاقی اعتبار سے اس کے درست ہونے سے ہے۔ ان کے نزدیک کسی بات کے ’حق ہونے‘ سے کسی کے استحقاق کا جواز نہیں نکلتا۔ وہ زیادہ تر کسی چیز کے ’حق رکھنے ‘ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ کیونکہ ’حق رکھنے ‘ سے خود بخود استحقاق کا پہلو نکلتا ہے اور جہاں استحقاق ہوگا، وہیں قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ لیکن اسلام میں اُمّ الحقو ق کے مرتبہ کو دیکھا جائے تو مندرجہ بالا دونوں باتیں صداقت پر