کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 35
۷ جنوری ۲۰۰۰ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ انگلینڈ میں ایک شخص کو محض اس جرم کی پاداش میں تین سال سزا سنائی گئی ہے کہ اس نے اپنی ساس کی بلی کو غصہ میں کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ یورپ کے بعض ملکوں میں اپنی منکوحہ سے جماع بالجبر (Marital rape) کے لئے عمر قید کی سزا تک موجود ہے۔ مگر یہی یورپ انبیاء کی توہین کے لئے کسی قسم کی سزا کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جب ایک نبی کو محسن انسانیت تسلیم کیا جاتاہے تو اس کی توہین کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جانا ضروری ہے۔ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ کے لئے اگر موت کی سزا دی جائے، تو یہ عین انصاف کا تقاضا اور جرم کی سنگینی کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو محسن انسانیت سمجھتے ہیں تو اس کا منطقی نتیجہ صرف یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے۔ ورنہ ہماری عقیدت محض ایک لفاظی اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اُمّ الحقوق کے تحفظ کے لئے سخت ترین سزا بھی کم ہے۔ انسانیت کا اگر اجتماعی ضمیر زندہ ہے تو اُمّ الحقوق کی خلاف ورزی کے لئے موت کی سزا کو عین انصاف قرار دیا جانا چاہئے۔ انسانی حقوق کا سرچشمہ کیا ہے؟ انسانی حقوق کا سرچشمہ (Source) کیا ہے؟ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی دانشوروں کے خیالات کا مطالعہ کریں تو اس اہم سوال پر بھانت بھانت کی بولیاں جواب میں ملتی ہیں ۔ انسانی حقوق کے علمبردار قدیم ترین فلاسفرز اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کا سرچشمہ ’’انسانیت‘‘ یا انسانی فطرت (Human Nature) ہے۔ ان کے خیال میں جس طرح قانونی حقوق کا سرچشمہ ’قانون‘ ہے اور معاہداتی حقوق معاہدوں سے جنم لیتے ہیں ، اس طرح انسانی حقوق بھی ’انسانی فطرت‘ سے اَخذ شدہ ہیں ۔ مگر یہ ’انسانی فطرت‘ بذات ِخود کیا ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں ؟ ان سوالات کا جواب کہیں نہیں ملتا…!! انسانی حقوق کا ایک جدید دانشور جیک ڈنلے Jack Donnelly اسی پریشانی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’کلاسیک نظریات اور لٹریچر میں اس مسئلے پر بہت کم روشنی ملتی ہے‘‘ جان لاک جولبرل یورپ کے اہم ترین سیاسی فلسفیوں میں سے ایک ہے، وہ انسانی حقوق کے ذرائع کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’خدا اپنی لامحدود حکمت اور رحمت کے باوصف ہمیں فطری حقوق عطاکرتا ہے ۔ وہ اس مفہوم میں ’فطری‘ ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہمیں عطا کردہ فطرت کا حصہ ہیں ۔‘‘ ایک اور معروف مفکر پین Paine کہتا ہے کہ ’’فطری حقوق کے لئے ثبوت کی ضرورت نہیں وہ اظہر من الشمس Self Evident ہیں ۔‘‘فرانسیسی انقلاب کے نتیجے میں جو اعلامیہ (ڈکلریشن) پیش کیا گیا اس میں یہ مجرد جملے ملتے ہیں ۔ ’’انسان اپنے حقوق کے اعتبار سے آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں ، اور وہ آزاد اور مساوی رہیں