کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 34
مرتبہ بلاشبہ بلند ترین ہے کیونکہ اس پہلو سے ان کی خدمات کا موازنہ عام انسانوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کا ایک ایک لمحہ نوعِ انسانی کے اخلاق و تربیت کی اصلاح کے لئے جدوجہد کرتے گزرا ہے۔ جب انہوں نے انسانیت کے لئے مقدس ترین خدمات انجام دیں تو ان پر یہ احسان نہیں بلکہ ان کا استحقاق ہے کہ ان کے حقوق کا درجہ بھی عام انسانوں کے حقوق سے برتر ہو۔ وہ صحیح معنوں میں محسن انسانیت ہیں ۔ انسانی معاشرے میں جو خیر، عافیت، نیکی، امن اور دیگر مثبت اَوصاف آج نظر آتے ہیں ، یہ انہی مقدس ہستیوں کا صدقہ جاریہ ہے۔ انسانی معاشرہ آج بھی اِلحاد و مادیت کے باوجود، انسان دوستی، یا انسانی خدمات کو اعلیٰ ترین قدر کے طور پر پہچانتا ہے۔ آج بھی کسی فرد کے کارناموں کو انسانیت کی خدمت کے میزان میں تولا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے کے لئے بنیادی اصول ہی یہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں یا علم وفن کے ماہرین کو ملنے والا اعزاز ان کی انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات کا ایک اعتراف بھی ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کے’ مہذب‘ انسان کے لئے ایک لمحہ ٔفکریہ ہے کہ وہ ان ماہرین کی انسانیت کے لئے خدمات کو خراج ِعقیدت پیش کرنا باعث ِ فخر سمجھتا ہے، مگر وہ انسانیت کے اصل محسنوں کی خدمات کا ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ آج کا انسان’انسانی حقوق‘ کو انسانی تہذیب کی معراج کا نام دیتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر ’انسانی حقوق‘ کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں ۔ جدید مغرب کے وضع کردہ انسانی حقوق کی معمولی سی خلاف ورزی ہی کسی قوم کو وحشی اور غیر مہذب قرار دینے کے لئے کافی قرار پاتی ہے مگر انسانیت کے محسنوں کی تحقیر و توہین کو ’انسانی حقوق‘ کی خلاف ورزی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تضاد آج کے انسان کے ضمیر کے لئے لمحہ ٔفکریہ ہے۔ انسانی خدمت کے جدید معیارات یا کسوٹی کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو بلامبالغہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت ہیں ۔ اس بات کا اعتراف بعض مغربی دانشوروں مثلاً کارلائل، مائیکل ہارٹ، برنارڈ شا وغیرہ نے بھی کھلے دل سے کیا ہے۔ انسانی حقوق کے محض اعلان و اعتراف سے ہی ان کا تحفظ ممکن نہیں ہے جب تک کہ ان کی خلاف ورزی کی مؤثر روک تھام نہ کی جائے۔ ضرورت پڑے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرسزا بذاتِ ِخود انسانی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ جدید سیاسی فکر میں حق زندگی اہم ترین انسانی حق ہے۔ کسی فرد کو اس کی زندگی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے قرارِ واقعی سزا دینا معاشرے میں عدل و انصاف اور سکون و آشتی کے قیام کا اوّلین تقاضا ہے۔ ایک عام آدمی کی بلاجواز توہین و تحقیر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ آج کی جدید ریاستیں Defamationاور Libel یا اِزالہ ٔ حیثیت ِعر ُفی کے قوانین کے نفاذ کی سخت پابندی پر یقین رکھتی ہیں ۔ انسان تو اپنی جگہ ، جدید مغرب حیوانات کے حقوق کے متعلق بھی بے حدحساس ہوچکا ہے۔ مٔورخہ