کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 32
حقوق کا وہی تصور رکھتا ہے جو کہ ریاست کے ایک عام شہری کو حاصل ہیں ۔ مگر ایک اور پہلو سے بھی یہ بات تعجب انگیز ہے کہ یہی مغربی ذہن جو حقوق الانبیاء کی فوقیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے وہ ایک ملکہ یا بادشاہ کو ایک مافوق الفطرت ہستی سمجھتے ہوئے ان کے برتر حقوق کی فوقیت کا تہ دل سے قائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے قانون میں نظری طور پر آج بھی ملکہ یا بادشاہ کی توہین کے مرتکب کے لئے سزائے موت موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تاجِ برطانیہ کے تقدس کے بارے میں تو آگاہی رکھتا ہے مگر اس کی مذہب بیزار عقل ’تاجِ رسالت‘ کی عظمت کی قائل نہیں ہے۔ کیونکہ گذشتہ پانچ صدیوں میں مغرب کے عقلاء و سیاسی دانشوروں نے مذہب سے بیزاری بلکہ تحقیر کے جو جذبات و نظریات پروان چڑھائے ہیں ، اس کے اثرات سے باہر نکلنا اس کے لئے بے حد مشکل ہے۔ عقل کی تمام خرافات کو ’منطقی و معروضی‘ سمجھنا اور الہامی تعلیمات کی صداقتوں کو توہمات قرار دینا جہاں روشن خیالی اور ترقی پسندی سمجھا جاتا ہو، وہاں حقوق ُالانبیاء کی معرفت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عالم اسلام کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ فکر ِمغرب کے ان تضادات کا معروضی جائزہ لینے کی بجائے اُلٹا اسی اسلوب میں ا سلامی فکر کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ درحقیقت وہ مغرب کی فکری محکومی میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ مغربی معیارات کو مسترد کرنا ا س کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ بظاہر جس آزادی ٔ اظہار پر نازاں ہے وہ آزادی مغربی فکر کی غلامی ہی کا دوسرا نام ہے کیونکہ اس کے نزدیک آزادی محض یہی ہے کہ اسلام یا مشرق کے روایتی تصورات پر کھل کر تنقید کی جائے۔ اگر کوئی مغربی تصورات کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہے تو یکطرفہ آزادی پر یقین رکھنے والا یہ طبقہ اسے رِجعت پسند اور دقیانوسی خیال کرتا ہے۔ عالم اسلام کے معروف دانشور واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سید حسین نصر امت ِ مسلمہ کے اس المیے کی نشاندہی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : "One of the worst tragedies today is that there has appeared recently in the Muslim World a newtype of person who tries consciously to imitate the obvious maladies of the west. Such people are not, for example, really in a state of depresion but try to put themselves into such in order to look modern." (The westersn world and its challenges to Islam P.3( ’’بدترین المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا میں حالیہ برسوں میں ایک ایسا جدید فرد (طبقہ) پیدا ہوگیا ہے جو شعوری طور پرمغرب کی خرابیوں کی نقالی کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ حقیقت میں کسی مایوسی کا شکار نہیں ہے مگر وہ ایسا محض اس لئے کرتے ہیں تاکہ ماڈرن (جدید) نظر آئیں ‘‘ اسلام میں حقوق کا تصور دو واضح دائروں میں منقسم ہیں : حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ کا تعلق عبادات سے ہے، ایک بندہ ہونے کے حوالے سے خالق کائنات کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کا