کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 31
تعلیم میں دین و سیاست کی تفریق کا تصور موجود ہے۔ انجیل میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں ’’جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو‘‘ یورپ کی موجودہ سلطنتیں اسی تصور پر قائم ہوئی ہیں ۔ یہ تصور چونکہ عیسائیت اور سیکولر ازم دونوں میں مشترک ہے لہٰذا مغرب میں اسے جو والہانہ پذیرائی میسر آئی ہے وہ زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلطنت اوردین کی تفریق کا یہ نظریہ جدید مغرب کا ’متفقہ مذہب ‘ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مگریہ تصورِ اسلام کے اساسی نظریات سے متصادم ہے۔ سید سلیمان ندوی صاحب کے الفاظ میں :
’’اسلام دین و دُنیا اور جنت ِ ارضی اور جنت ِ سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اوّل ہی روز سے پیدا ہوا۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ، ایک ہی شہنشاہ علیٰ الاطلاق ہے جس کی حدودِحکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰ۔ اسی کا حکم عرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے، وہی آسمان پر حکمران ہے، وہی زمین پر فرمانروا ہے‘‘ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم :جلد ہفتم، مقدمہ صفحہ نمبر ۴۵)
ایک اور مقام پر سیدسلیمان ندوی اس بات کو بے حد خوبصورت پیرائے میں بیان فرماتے ہیں :
’’اسلامی سلطنت ایسی سلطنت ہے جو ہمہ تن دین ہے یا ایسا دین ہے جو سرتاپا سلطنت ہے مگر سلطنت ِالٰہی، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس سلطنت ِ الٰہی میں قیصر کا وجود نہیں ۔ اس میں ایک ہی حاکم اعلیٰ و آمر مانا گیا ہے۔ وہ حاکم علیٰ الاطلاق اور شہنشاہ قادرِمطلق اللہ تعالیٰ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دین کے سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور وہی اس سلطنت کے سب سے پہلے امیر، حاکم اور فرماں روا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجاآوری عین احکامِ خداوندی کی بجا آوری ہے۔ ’’جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، ا س نے خدا کی اطاعت کی‘‘ النساء، آیت نمبر ۸… (ایضاً،صفحہ۱۱۰)
سلطنت ِالہیہ کوئی مافوق ُالفطرت یا مجرد تصور نہیں ہے جیسا کہ ناقدین اسلام کا خیال ہے۔ انبیائِ کرام کے ذریعے اس کا تعلق خالصتاً انسانی معاشرے یا زمین سے جوڑ دیا گیا ہے۔ رسالت بنیادی طور پر اللہ کی نمائندگیہے۔ مغرب کی جدید جمہوری ریاست بھی فکری اعتبار سے عوام کی حاکمیت ہے، اس کا اپنا وجود بذاتِ خود سرچشمہ ٔ اقتدار نہیں ہے۔ اگر عوامی نمائندگی پر مبنی ریاست کا تصور مجرد نہیں ہے تو ’خدائی نمائندگی‘ پر مبنی تصورِریاست کو مجرد کہنا منطقی طور پر درست نہیں ہے۔
ریاست اور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین اس بنیادی تعلق کوصحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہی ہے کہ آج کا جدید سیکولر ذہن ریاست سے غداری کے جرم کے لئے سزائے موت کے اطلاق میں کوئی قباحت محسوس کرتا ہے نہ اسے غیر عقلی یا غیر انسانی سمجھتا ہے مگر یہی ذہن توہین رسالت کے جرم کے لئے موت کی سزا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سیکولر ذہن کا سب سے بڑا فکری مغالطہ ہی یہ ہے کہ وہ معاذ اللہ رسول (یا نبی) کو بھی عام فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اسی لئے وہ رسول کے لئے بھی انسانی