کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 30
’رسالت‘ ہی اسلامی ریاست کے آئین کا اصل سرچشمہ و مآخذ ہے۔ لہٰذا سرچشمہ کی عدم موجودگی میں ریاست کا قیام ممکن ہی نہیں ۔ ریاست ایک ماورا اور برتر تصور ہے جس کے مقاصد کا دائرہ کسی خاص خطہ ٔ ارضی کی بجائے پوری انسانیت یا کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ اسلامی ریاست ایک خاص علاقے میں قائم ہونے کے باوجود پوری انسانیت کی فلاح کا عظیم نصب ُ العین کبھی بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔
اسلامی نظریہ کے مطابق رسالت کے حقوق کا حقیقی مظہر محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِاقدس ہے۔لہٰذا جناب رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمانوں پر جو حقوق ہیں ، وہی درحقیقت ’اُمّ الحقوق، ہیں ۔ یہ اُمّ الحقوق ا س بنا پر ہیں کہ باقی تمام ’حقوق‘ کا یہ نہ صرف سرچشمہ ہیں بلکہ ان کے تعین کا اصل معیار بھی ہیں ۔ اسلامی ریاست چونکہ رسالت کے نصب ُالعین کے تابع ہے لہٰذا اس کے اہم ترین فرائض میں سے ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ بھی ہے۔ ا گرریاست کے وجود کے خلاف کوئی کارروائی High Treason کا درجہ رکھتی ہے، تو رسالت کے خلاف کوئی توہین آمیز اقدام اس سے کہیں بڑھ کر سنگین اور قابل سزا ہے۔ اسلامی ریاست میں ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ محض ریاست کی ذمہ داری ہی نہیں ہے، افراد بھی اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں ۔ یہی وجہ ہے خود رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ اقدس کے دوران بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان ’حقوق‘ کی بے حرمتی کے مرتکب افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، اگرچہ بعد میں انہیں تائید رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ( یا ریاست) بھی میسر آگئی۔
انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا فکری جبر
’اُمّ الحقوق‘ کے بارے میں معروضی رائے قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اسلامی ریاست کے وسیع تر سیاسی تصور اور غرض و غایت کی روشنی میں دیکھا جائے۔ مغربی ذہن کی سب سے بڑی خامی ہی یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے ’’اداروں /تصورات‘‘ کو مغربی سیکولر ریاست کے معیارات پر جانچنے کا عادی ہے۔ یہ ان کا علمی تکبر اور عقلی رعونت یا کوتاہ فکری ہے کہ وہ مغربی سانچوں سے باہر نظریات کے اِدراک و تفہیم سے قاصر و بے بس ہیں ۔ انہوں نے فرض کر لیا ہے کہ مغرب کے ریاستی نظریہ کے علاوہ کوئی دوسرا تصور نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی قابلِ عمل ۔ وہ اپنی اس فکری رعونت کے محل کے باہر جھانکنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے، اس کی خواہش ہے کہ نوعِ انسانی اس کی اس آزاد خیالی کی غلامانہ اطاعت کے سامنے سرتسلیم خم کرے جو ان کی الحاد پرست عقل نے گذشتہ چند صدیوں کے دوران پروان چڑھائی ہے۔ ایک طرف مغرب آزادی ٔافکار، آزادیٔ ضمیر وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے مگر دوسری طرح دوسری اَقوام کو اپنی فکر سے اختلاف کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی تصورات کا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ اسلام کلیسا اور ریاست کی دوئی یا ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ موجودہ سیکولر مغرب تک ہی یہ بات محدود نہیں ہے خود عیسائیت کی بنیادی