کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 28
اسلام اور مغرب محمد عطاء اللہ صدیقی
اُمّ الحقوق
فرائض کے بغیر حقوق کا تصور غیر اسلامی ہے!
دور ِ حاضر کا انسان اپنی آئینی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو ’ حقوق‘ کی زبان میں سمجھنے کی کاوِش میں مصروف ہے۔ حقوق و فرائض باہم ناگزیر ہیں ، ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ۔ گویا ہر ایک ’حق‘ کے ساتھ ، ایک فرض ، لازماً ملحق ہے۔ فرائض کے تعین کے بغیر مجرد حقوق کا تصور ایک بے معنی نظریہ یا علمی بحث سے زیادہ نہیں ہے!!
گذشتہ پچاس برسوں میں انسانی حقوق کے نظریہ کو جو پذیرائی ملی ہے، ماضی میں ا س کا تصور بھی محال تھا۔ فرد اور ریاست کا باہمی تعلق ہو، افراد کے مابین معاملات باہمی کی بات ہو، مرد و زن کے باہمی اِرتباط کا معاملہ یا پھر ایک ریاست کے اکثریتی و اقلیتی طبقات کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی تعلقات کا مسئلہ ہو،ان سب معاملات کے متعلق حقوق کے مختلف دائرے قائم کئے جارہے ہیں ۔ مثلا ً فرد کے آئینی حقوق، انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ۔
اسلام کا حقوق و فرائض کے متعلق ایک واضح اور متوازن نظام موجود ہے جس میں سیکولر حقوق جیسی افراط و تفریط نہیں پائی جاتی۔ اسلام نے حقوق ُاللہ اور حقوق ُالعباد کے دو وسیع دائروں میں حقوق و فرائض کے پورے نظام کو مقید کردیا ہے۔ یہ دونوں دائرے الگ وجود بھی رکھتے ہیں اور ناقابل انفکاک حد تک ایک دوسرے میں باہم پیوست بھی ہیں ۔ حقوق اللہ کی تفہیم کے بغیر حقوق العباد کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔
سیکولر اور اسلامی نظریہ میں اس مسئلہ کے متعلق ایک اُصولی فرق ہے۔ آج کل کے سیکولر نظریے میں حقوق کے غیر معمولی تذکرہ اور تشہیر کے ذریعہ فرائض کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ گویا ان کے ہاں اصل زور’حقوق‘ پر ہی ہے، فرائض محض ان ’حقوق‘ کی پاسداری کا منطقی نتیجہ ہیں ۔ مگر اسلامی نظریہ کی روح کو پیش نظر رکھا جائے تو یہاں فرائض کو اوّلیت کا مقام حاصل ہے۔ گویا فرائض کی انجام دہی درحقیقت ’حقوق‘ کی عادلانہ پاسداری کی صورت میں منتج ہوتی ہے۔ اسلام میں فرائض کا تذکرہ ، یہی وجہ ہے، بالعموم حقوق کے تذکرہ سے زیادہ ملتا ہے۔ مختصراً یہ کہ سیکولر نظام میں ’حقوق‘ ایسا معیار ہیں جن پر فرائض کو پرکھا جاتا ہے جبکہ اسلام میں اصلاً فرائض اَخلاقی معیار ہیں جن کی بنیاد پر حقوق کا تعین کیا جاتاہے۔