کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 26
تھے۔ حضرت حذیفہ ان کو پہچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی فرما دیا تھا کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
۱۸۔ عامر بن طفیل اور ارید کی سازش قتل، ۱۰ ہجری
۱۰ ہجری میں عرب بھر سے مدینہ میں جو وفود آئے، ان میں ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشدوہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا اس وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا… اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرا دیا تھا۔ دوسرا ارید بن قیس، تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا حبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔
عامر اور ارید نے راستہ ہی میں یہ سازش بنائی تھی کہ دھوکہ دے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا۔ تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں ارید گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا او روہ اسے بے نیام بھی نہ کرسکا اور اس کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چنانچہ واپسی پر ارید اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مرگیا۔ رہا عامر تو اسی واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پرایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’آہ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت‘‘
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا: ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں : (۱) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا، (۲) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنوں گا اور (۳) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھا ئی کروں گا۔[1]
اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت ا س کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں ! میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ‘‘ چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں موت نے اسے آلیا۔[2]
سو یہ ہے ان سازشوں کی مختصر سی داستان، جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کی ذات کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کئے گئے تھے۔ وہ محسن اعظم جو دنیا بھر کے لوگوں کی اِصلاح و فلاح کے لئے یکساں درد رکھتا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں کو ناکام بنا کر ﴿ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ﴾ کا وعدہ اور ذمہ پورا کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی پورا ہوگیا:
[1] الرحیق المختوم، ص:۶۸۶
[2] بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع