کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 25
۱۵۔ ایک بدوی کا ارادہ ٔ قتل
غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر ایک مقام پر لشکر نے پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے جابیٹھے۔ تلوار درخت سے لٹکا دی۔ لیٹے ہی تھے کہ نیند غالب آگئی۔ اتنے میں اسلام دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ تلوار درخت سے اتار رہا تھا کہ آپ جاگ گئے۔ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بتاؤ! اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ً جواب دیا :’’میرا اللہ‘‘… یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س بیباکی سے کہے کہ وہ بدو کانپنے لگا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنبھال لی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قابو پالیا۔ تو اسے معاف کردیا اور اپنے پاس بٹھا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایا اور اصل ماجرا سے آگاہ کردیا۔[1]یہ بدو اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہوئے تھے۔
۱۶۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ ٔ قتل، ۸ ہجری
یہ وہی فضالہ ہیں جن کا باپ عمیر بن وہب جمہی بھی، صفوان بن امیہ سے مشورہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے مدینہ آیا تھا اور نتیجۃً اسلام لاکر واپس مکہ جاکر مقیم ہوگیا تھا۔ فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا۔[2]
۱۷۔ منافقوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش، ۹ ہجری
غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر تقریباً ۱۵ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلے راستہ کی بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری سے اٹھا کرنیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے۔ اسی سازش کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ٹھاٹھے باندھے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثناء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر تتر بتر کردیں ۔ اس کام سے منافقوں کوبھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں ۔ لہٰذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکردامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہِ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنا دیا۔[3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان کو ان منافقوں کے نام اور ان کے باپوں کے نام بھی بتلا دیئے
[1] بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب من علق سیفہ بالشجرہ
[2] بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم
[3] الرحیق المختوم، ص:۶۴۸