کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 24
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! ان لوگوں کو بھی ایسے ہی چاک کردے۔[1]اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ان لوگوں کے حق میں حرف بحرف پوری ہوئی۔
خسرو نے نامہ مبارک چاک کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حاکم یمن باذان کو حکم دیا کہ وہ کسی آدمی کو مدینہ بھیجے جو اس نئے مدعی ٔنبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے اس غرض سے دو آدمی مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ شہنشاہِ کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر تعمیل حکم نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ کردے گا‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آدمیوں سے کہا کہ ’’اچھا تم کل آنا‘‘ جب وہ دوسرے دن حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے شہنشاہِ عالم [2] کو تو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اس سے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ ٔ تخت تک پہنچے گی۔ ‘‘ وہ جب یمن واپس آئے تو وہاں خسرو کے قتل کی خبر پہنچ چکی تھی، یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔
۱۴۔ جادو کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش
تقریباً انہی ایام میں زہر آلود بکری کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی دوسری سازش یہ کی کہ انہوں نے اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو ماہر جادوگر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کروایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) اس کے اثر سے ہلاک ہوجائیں ۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا۔ انہوں نے جیسے بھی بن پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال حاصل کئے۔ان پر منتر پڑھا، پھر گانٹھیں لگائیں ۔ پھر ان بالوں کو کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا۔
یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ ایسے سرخ ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اگر کسی دوسرے شخص پر اتنا سخت جادو کیا جاتا تو وہ غالباً جانبر نہ ہوسکتا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا صرف اتنا اثر ہوا کہ چند ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ یہ کام کرچکا ہوں مگر حقیقتاً وہ کیا نہ ہوتا تھا۔ تاہم اس دوران کسی بھی شرعی کام میں کچھ خلل واقع نہ ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کے اِزالہ کے لئے اللہ سے دعا فرمائی۔ چنانچہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری صورتحال تفصیل سے بتلا دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر ذَوران کنوئیں پر گئے۔ پتھر کے نیچے سے وہ پوٹلا نکالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اس پوٹلے کو کھول کر اس کا توڑ کریں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے، اب میں فساد نہیں پھیلانا چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید بن اعصم اور یہود سے بھی اس کا کچھ انتقام نہیں لیا۔[3]
[1] بخاری، کتاب العلم، باب المناولۃ، کتاب المغازی، باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر…
[2] سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱،ص:۴۸۲
[3] بخاری، کتاب بدء الخلق نیز کتاب الادب باب ان اللہ یامر