کتاب: محدث شمارہ 238 - صفحہ 22
یہود بھی ابتدائی معاہدہ کی رو سے اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اسی سلسلہ میں بنونضیر کے ہاں گئے۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک مکان کے صحن میں بٹھلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہود وہاں سے اس بہانے چلے آئے کہ ہم جاکر رقم اکٹھی کرتے ہیں اور وہاں سے باہر آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا: ’’کون ہے جو مکان کی چھت پر جاکر اوپر سے چکی کا پاٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر گرا کر اسے کچل ڈالے؟‘‘ [1]
ایک دوسرا بدبخت فوراًاس کام کے لئے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا ً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوۂ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی او ر بالآخر انہیں جلا وطن ہونا پڑا۔
۱۱۔ ثمامہ بن اثال کا ارادۂ قتل، ۶ ہجری
محرم ۶ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر حضرت محمد بن مسلم رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورتحال کی تحقیق کے لئے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن ا ثال حنفی کو گرفتار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا جسے مسلمانوں نے گرفتار کرلیا۔ مدینہ پہنچنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسجد ِنبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا:
’’ثمامہ! کیا صورت حال ہے؟‘‘ ثمامہ کہنے لگا:
’’اگر مجھے قتل کردو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کردو، تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو جتنا چاہتے ہو وہ بھی مل جائے گا‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثمامہ کا جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی باتیں دہرا دیں جو اس نے پہلے دن کہی تھیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن بھی کچھ جواب نہ دیا اور واپس چلے آئے۔
تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے پاس گئے اور تیسرے دن بھی بعینہٖ وہی سوال و جواب ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ ’’اسے رہا کردو‘‘
آزاد ہونے کے بعد ثمامہ ایک باغ میں گیا۔ وہاں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آکر اسلام قبول کرلیا اور کہنے لگا: ’’واللہ! آج سے پہلے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے۔ میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے پکڑ لیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور عمرہ
[1] الرحیق المختوم، ص۴۶۲